Muhammadi Rohani Qafila

فرضیت روزہ اور قرآن مجید

مجلس نمبر 1 فرضیت روزہ اور قرآن مجید
فرضیت روزه کے متعلق حکم قرآن
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (سوره البقره : 183)

ترجمہ


”اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں(پہلی امتوں) پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پر ہیز گاری ملے ۔“

پہلی بات یہ کہ صرف امت محمدیہ پر ہی نہیں بلکہ سابقہ امتوں پر بھی روزے فرض کیے گئے
اس آیت سے ہی روزہ کی فرضیت ہوئی ہے۔
رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت کا حکم دوسری صدی ہجری میں تحویل قبلہ کے واقعے سے دس (10) روز بعد ماہ شعبان المعظم میں نازل ہوا
چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے تقریباً (9 ) سال رمضان المبارک کے مہینے میں روزے رکھے۔

آیت کریمہ شعبان المعظم کے مہینے میں نازل ہوئی جس میں رمضان المبارک کو ماہِ صیام قرار دیا گیا۔ باری تعالیٰ نے اہل ایمان سے ارشاد فرمایا:
فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ (سورة البقرة : 185)
تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے۔“

سب سے پہلے کون سا روزہ فرض تھا ۔ رمضان المبارک سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھنا فرض تھا پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو اس سے پہلے کے تمام روزوں کی فرضیت منسوخ ہو گئی۔

فقہاء شوافع کا موقف

روزه کےلغوی معنی

وزہ کو عربی میں ”صوم“ کہتے ہیں جس کا معنی ہے رکے رہنا کسی کام کو ترک کرنا، قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ رب العزت نے حضرت مریم کے اس قول کو بیان فرمایا۔

إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أَكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِيَّا ( سورة المريم:26 )
میں نے آج رحمن کا روزہ مانا ہے، تو آج ہر گز کسی آدمی سے بات نہ کروں گی۔“

روزہ کے اصطلاحی معنی

ترجمہ: روزہ کی نیت کے ساتھ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک ہر قسم کے کھانے پینے اور عمل زوجیت سے رکے رہنا-

رمضان کی وجہ تسمیہ

امام المفسرین شیخ امام علی بن سلطان محمد ہروی المعروف ملا علی قاری المتوفی (1016ھ) فرماتے ہیں۔ رمضان ، رمضاء سے مشتق ہے صیغہ صفت ہے اس کا معنی سخت گرم زمین ہے لہذا رمض کا معنی سخت گرم ہوا۔ رمضان کا یہ نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ جب عربوں نے پرانی لغت سے مہینوں کے نام منتقل کئے تو انہیں اوقات اور زمانوں کے ساتھ موسوم کر دیا جن میں وہ اس وقت واقع تھے اتفاقاً رمضان ان دنوں سخت گرمی کے موسم میں آیا تھا اس لیے اس کا نام رمضان رکھ دیا۔
( مرقاة المفاتيح جلد 4 ، ص (229)

دوسرا قول

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رمضان کا لفظ ٫٫رمض الصائم،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے روزہ دار کے پیٹ کی گرمی شدید ہوگئی ۔ رمضان کو رمضان کا نام اس لیے دیا گیا کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔
(لسان العرب جلد 7 ص (162)

فائده

 

اب آپ قارئین حضرات غور فرمائیں جس کا معنی بتا رہا ہے کہ روزے دار کے گناہ جل جاتے ہیں تو روزہ دار گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ ہم سب کو اپنے کثیر گناہوں پر نظر کرتے ہوئے رمضان المبارک کے مکمل 30 یا 29 ہوں روزے رکھنے چاہئیں اور کوئی بھی روزہ قضاء نہیں کرنا چاہیے-

 

أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ میں نداء کی حکمت

اہل لسان فرماتے ہیں یہ نداء ہے حبیب سے حبیب کی طرف أَيُّهَا تنبیہ ہے حبیب سے حبیب کی طرف ، آمَنُوا شہادت ہے حبیب سے حبیب کی طرف، اللہ تعالٰی ہر مومن کا محبوب حقیقی ہے تو حبیب بمعنی محبوب ہوگا ، ہر مومن مُحبِ ذات باری ہے تو حبیب بھی محب ہوگا، تو محبوب حقیقی نے اپنے محب مومن کو نداء فرما کر اپنے محبین کو اہل ایمان ہونے کی گواہی دی ہے۔
حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ ارشاد فرماتے ہیں ۔ محبوب کی ندا عبادت کی تھکن دور کر دیتی ہے پھر جب روزہ دار طلوع فجر سے غروب آفتاب تک تمام مشروبات اور عمل تزویج سے دور رہتا ہے ۔ محبوبِ حقیقی کی نداء کے سماع کے لیے تو آخر کار وہ وقت آن پہنچتا ہے کہ جب محبوبِ حقیقی اپنے محب سے فرماتا ہے۔ الصوم لی وانا اجزی به
روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اسکی جزاء عطا کرتا ہوں
خادم المسلمین
فقیر غلام حسنین قادری سہالہ اسلام آباد

سائیں سرکار سے رابطہ کریں

آپ سائیں سرکار سے براہ راست بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔ رابطہ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کریں۔

WhatsApp نمبر

رابطہ فارم


Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.