اللہ کی محبت
اللہ کی محبت (مجلس نمبر ۰۱)
یاد رکھیئے !جتنی انسان کے دل میں اللہ رب العزت کی محبت زیادہ ہو گی اتنا ہی اللہ کے ہاں اس کا درجہ زیادہ ہو گا۔ حدیث قدسی ہے ! اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشا د گرامی ہے ۔ ”جان لو جو مجھ سے محبت کرنے والے ہیں ان کا میری ملاقات کا شوق بڑھ گیا میں ان کی ملاقات کے لیے ان سے بھی زیادہ مشتاق ہوں “۔اندازہ لگا لیجئے کہ جب کوئی بندہ اللہ کی ملاقات کا شوق کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بھی زیادہ اُس بندے سے محبت فرماتے ہیں ۔ بعض اوقات بندے پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت اتنی غالب ہوتی ہے کہ سر کے بالو ں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک وہ اللہ کی محبت سے لبریز ہو جاتا ہے۔
اسم اعظم کی اہمیت و فضیلت
سالک کی کیفیت
یہ سر سے ناخن تک لبریز ہو جانا ایک سالک کی کیفیت ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ، اللہ کے ذکر میں اپنے آپ کو سرشار کرتا ہے تو وہ لذت وہی محسوس کرتا ہے کوئی اور اس لذت کو نہیں جانتا تو اسی وجہ سے جب بندہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ بندے کی اس کیفیت کو دیکھ کر ، ارشاد فرماتا ہے ”توجب یہ بندہ اس حالت میں پہنچ جاتا ہے تو پھر میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے،میں ان کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، میں ان کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کام کرتا ہے ، میں ان کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے“۔ اللہ تعالیٰ کی نہ ہی آنکھیں ہیں ، نہ ہی زبان ہے، نہ ہی ہاتھ ہیں اور نہ ہی پاؤں ہیں۔یہ محبت کا ایک رنگ بتایا گیا ہے کہ جب یہ بندہ میرے ساتھ اتنی محبت کرتا ہے تو پھر میں اُس سے کتنی محبت کرتا ہوں ۔
دنیا میں سب سے قیمتی چیز
دنیا میں سب سے قیمتی اللہ کی محبت ہے اور اُس کے بعد اللہ کے محبوب ﷺ کی محبت ہے ۔آپ نے علماء سے سنا ہے کہ شیطان عابد تھا، عبادت گزار تھا۔ زمین کے چپے چپے پر سجدہ کیا اور بہت عبادت کی اور اس نےاپنے علم کی دلیل پیش کی کہ میں افضل ہوں اور وہ اپنے علم پر آ گیا ۔ اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی نہ کی ۔
سورۃ الاعراف میں ارشادِ باری تعالی ہے
خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ (۲۰۶)
”یہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے اورآگ اوپر کی طرف جاتی ہے اور انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور اس نے نیچے جانا ہے“۔ تو یہ دلیل اس علم کی وجہ سے پیش کی شیطان عابد تھا ،عارن تھا ، عارف تھا، اس کو معرفت تھی اس بات کی کہ اللہ رب العزت جب جلال میں آ جائے تو عین جلال کے عالم میں بھی اللہ کی رحمت اُس سے جدا نہیں ہوتی تو عین جلال کی حالت میں بھی اللہ کی صفت ِ رحمت موجود ہوتی ہے اسی لیے جب اللہ تعالیٰ نے اُسے کہا کہ نکل جا یہاں سے ، دفعہ دور ہوجا یہاں سے تو باوجود اللہ تعالیٰ کے جلال کے کہنے لگا اللہ مجھے مہلت دے تو اللہ تعالیٰ نے عین جلال کے وقت مہلت دی اور فرما دیا کہ ”ٹھیک ہے میں تمہیں مہلت دیتا ہوں لیکن یاد رکھ جو میرے بندے ہیں وہ میرے ہی ہیں “اللہ نے اسے اختیاردے دیا ۔
اللہ کی محبت میں حائل رُکاوٹ
میرے روحانی دینی بھائیو! دیکھنا کہ کہیں شیطان ، اللہ اور ہمارے درمیان جو محبت ہے اس میں حائل نہ ہو جائے اور اُس نے قسم اُٹھائی ہوئی ہے کہ میں نے آخری دم تک بندوں کو ورغلانا ہے، پسلانا ہے، ان کو تیر ی راہ سے ہٹانا ہےلیکن جنہیں اللہ کی محبت کی لذت مل گئی تو پھر وہ اُس کی چالوں اور چالا کیوںمیں نہیں آتے ۔
دو عالم سے بیگانہ کرتی ہے دل کو
عجب چیز ہے لذت ِ آشنائی
جس کو یہ لذت مل جائے پھر وہ اس دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہو جاتا ہے ۔ دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس کا وجود اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے ہے، اللہ کی محبت کے لیے ہے، وہ چلتا ، پھرتا ، اُٹھتا ، بیٹھتا ، کھاتا ، پیتا ، اللہ کی محبت کے ہی گُن گائے گا او ر اس کے بغیر اس کا کوئی کام نہیں ہو گا۔ وہ اللہ ہی کی ذات کا ذکر کرے گا۔تو اللہ کے نام کی برکتیں ایسی ہیں کہ جب وہ بندے کو مل جاتیں ہیں تو پھروہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں بھولتا ۔
اسم اعظم “اللہ” کی طاقت
میرے روحانی دینی بھائیو ، ! اسمائے صفاتی ۹۹ ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی حدیث میں ہیں لیکن اُس کا ذاتی نام ”اللہ “اسم اعظم ”اللہ “ہے۔
امام اعظم ابو حنیفہ کی تحقیق میں ہے وہ فرماتے ہیں کہ اسم اعظم ”اللہ “ہے۔ قاری ثناء اللہ پانی پتی رحمتہ اللہ تعالیٰ نے تفسیر مظہری میں اس بابت اسم اعظم پر سب سے زیادہ تفصیلی بات کی ہے ، اس پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ بھی یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسم ذات ”اللہ “ ہے ۔ یہ وہ لفظ ہےجو اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذاتی نام ہے ۔ اس نام میں بہت طاقت ہے ، اس نام میں بہت قوت ہے، یہ نام فاصلوں کو سمیٹ دیتا ہے ، ا س نام کا ذکر کرنے والا بھا ری سے بھاری چیز کو اُٹھا لیتا ہے ، پہاڑوں کو اُٹھا لیتا ہے اورآصف بن بلخیاء کو اسم اعظم ہی معلوم تھا ۔وہ خوش نصیب ہے جسے اسم ذات کی معرفت ملی ، وہ خوش نصیب ہے جس کی زبان پر اللہ کا ذکر آیا ، وہ خوش نصیب ہے کہ اس نام کی برکت سے وہ گناہوں سے دور ہو گیا۔ وہ خوش نصیب ہے کہ وہ اس نام کی برکت سے رسول ﷺکی سنت پر چل پڑا لیکن یاد رکھیئے یہ نام ہر زبان پر نہیں آتا ہر بند ہ اس نام کا ذاکر نہیں بن سکتا یہ بہت خاص ذکرہے اور خواص کے لیے ہے ۔
اسم اعظم کی برکتیں
دنیا میں بھی بہت سے ایسے پھل ہیں جو دنیا میں جو غریب نہیں کھا سکتا امیروں کے دستر خوان پر ہوتے ہیں کیونکہ اُن کی رسائی ہے ان پر ۔ اسی طرح اس زبان کی رسائی ، اس زبان کی پاکیزگی ، اس زبان کی طہارت ، اور دل کی عاجزی ، آنکھوں کی حیا ، معدہ میں لقہ حلال، اخلاق میں بلندی ، عجز و انکساری اس طرح جیسے پھل دار درخت جھکا ہوا ہو، پھر ایسی صفات والےحامل شخص کی زبان پر اسم ذات آئے گا تو پھر اس کے اثار کیا ہوں گے۔ بہت سے لوگ اس نام کا ذکر اس لیے کرتے ہیں کہ اُنہیں غیبی چیزیں مل جائیں ، جنات پر قوت حاصل کر لیں ، موکلات کو قابو کر لیں ، آسیب کو پکڑ لیں، جادو کو ختم کر لیں ۔یہ طلب دنیا ہے ۔یاد رکھنا کوئی ہزار سال بھی اس طلب میں ”اللہ“ ”اللہ“ کرےبالکل بےکار ہے۔ اُس منزل کو نہیں پا سکتا جو خاص منزل ہے اُس کیفیت پے قائم نہیں رہ سکتا جو اس نام کے ذاکر کو ملتی ہے۔
زبان کی پاکیزگی کی اہمیت
اس زبان کو پاک کرنا پڑے گا۔ کچھ زبانیں ہیں جو درجہ پا لیتی ہیں اور ان کے منہ سے اسم اعظم نکلتا جائے تو اثار نمودار ہوتے ۔ جیسے جناب عیسی علیہ السلام مردے کو کہا کرتے قُمْ بِاذْنِ اللہ مردہ اُٹھ کر بیٹھ جاتا، مردے کو کون زندہ کر سکتا ہے اللہ کے سوا؟کوئی نہیں کر سکتا لیکن وہ زبان پاکیزہ تھی ، اُس زبان میں تاثیر تھی ہم قُمْ بِاذْنِ اللہ کہیں سویا ہوا بندہ نہیں جاگتا اور وہاں مردے زندہ ہو جایا کرتے تھے۔ زبان کو ہمیں تیار کرنا پڑے گا، زبان پر ہمیں محنت کرنا پڑے گی،اس دل پر محنت کرنا پڑے گی، اس جسم پر محنت کرنا پڑے گی، اسے ڈھالنا پڑے گا، اسے تزکیہ کرانا پڑے گا، اسے ریاضت پر ڈھالنا پڑے گا۔ ریاضت کے سانچے میں اسے رکھنا پڑے گا۔ پانی اُ س وقت برف بنتاہے جب اسے اس کے درجہ حرارت ملے۔ اسی طرح انسان کو اس کی اصلاح کے لیے وہ ماحول چاہیے ، وہ مجلس چاہئے ، وہ لوگ چاہیں ، جن کے دلوں پر ”اللہ“ کا نام جاری ہے۔
ذاکر کی منزل
ہم ذکر اس لیے کرتے ہیں کہ دنیا کے غموں سے نکل جائیں،اُس سے اللہ نکال بھی دیتا ہے ، لیکن وہ مقام نہیں ملتا جوذاکر کو ملتا ہے ۔ ذاکر کبھی بھی نہیں آزماتے کہ ہم اللہ کے ذکر کے ذریعے ، پہاڑ کو اُٹھا لیں ، ہم اس ذکر کے ذریعے غیب کی بات کو بتا دیں ، ہم اس ذکر کے ذریعے جنات کو قابو کر لیں کیونکہ اُن کی یہ منزل نہیں ہےبلکہ اُن کی منزل ہے طلب مولا، فکر مولا، ذکر مولا۔
اسم اعظم کی برکت سےکافر کا مسلمان ہونا
ایک حدیث مبارک کا مفہوم ہے !حضور اکرم ﷺ ایک مرتبہ ایک درخت کے نیچے آرام فرما تھے ، اپنی تلوار ِ مبارک درخت پرلٹکا دی، ایک کافر کی وہاں سے گزر ہوئی اُس کی اچانک وہاں پرنظر پڑتی ہے کہ مسلمانوں کے رسول ﷺ درخت کے نیچے آرام فرما رہے ہیں تو اس نے سوچا کہ بہت سنہری موقع ہے اس سے فائدہ حاصل کروں اور میں مسلمانوں کے پیغبر ﷺ کو( نعوذ باللہ) ہلاک کر دوں۔وہ آہستہ آہستہ قدم آیا اور آ کر اُس نے تلوار درخت سے اُٹھا لی اور وار کرنا ہی چاہتا تھا کہ اللہ جل و شانہ کے پیارے محبوب ﷺ بیدار ہو گئے جب اُس نے دیکھا کہ محمدﷺبیدار ہو گئے تو کہتا ہے کہ اے محبوب ﷺ تمہیں اب کون مجھ سے بچا سکتا ہے ۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ اللہ کے محبوب ﷺ نے اُس وقت جو لفظ بولا وہ کیا تھا ۔ میرے آقا ﷺ نے صرف یہ کہا۔ اسم اعظم “اللہ ”کی یہ تاثیر تھی کہ اُس پر ایسا خوف طاری ہو گیا وہ کانپنا شروع ہو گیا حتی کہ تلوار اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی ۔ تو حضور ﷺ نے تلوار کو اُٹھا لیا اور کہا اب بتا کہ تجھے کون میرے ہاتھ سے بچائے گا تو اب وہ خوشامد کرنے لگا کہ آپ ﷺ تو قریش کے خاندان سے ہیں ۔ آپ ﷺ کے اخلاق تو بہت اچھے ہیں آپ ﷺدشمنوں کو معاف کر دیتے ہیں، آپ بہت ہمت والے ہیں اس طرح اُس نے بہت اوصاف بیان کرنے شروع کر دیے ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا جا میں نے تجھے معاف فرما دیا ۔ جب نبی ﷺ معاف کر دیا تو وہ کھڑا رہا عرض کیا اے اللہ کے محبوب ﷺ آپ نے تو معاف فرما دیاکھڑا اس لیے ہوں کہ اب کلمہ پڑھا دیجئے کہ آپ ﷺ کا رب بھی مجھے معاف فرما دے۔ تو زبان نبوت ﷺ سے اللہ کا جو لفظ نکلا اس پر خوف طاری ہو گیا اُس کی حالت بدل گئی یہ ایسا تاثیر رکھتا ہے اللہ کا نام بہت برکت والا ہے “اللہ” کا نام ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ جل و شانہ کے نام تاثیر ،فضیلت اور اوصاف کوئی بھی بیا ن نہیں کر سکتا یہ تو بیا ن سے باہر ہیں۔ آپ کو اس کی فکر اور حریص بنانے کے لیے اس کی کچھ فضیلتیں اور برکتیں اس کی تاثیر بیا ن کی جارہی ہے۔ یہ نام بہت پسندیدہ ہے، یہ نام بہت محبت والا ہے۔”اللہ “کی محبت میں پورا جہاں فنا ہو جائے۔
اللہ کے ذکر سے ہتھ کڑیوں اور بیڑیوں کا کھل جانا
اللہ کی محبت بہت کمال ہے ۔ لفظ“اللہ”کی بہت تاثیر ہے ۔ ساتویں صدی ہجری میں تاتاریوں کا ایسا فتنہ اُٹھا کہ اُنہوں نے مسلمانوں پر بڑے ظلم کیے ،بڑی مصیبتیں مسلمانوں پر ٹوٹیں۔ ساتویں صدی ہجری میں مسلمانوں سے تخت و تاج چھین لیا گیا ۔ پوری دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کی حکومت نہ رہی، اتنا بڑا فتنہ تھا۔ تاتاری غالب آ گئے ایک دن میں بغداد میں دو لاکھ مسلمانوں کو ذبح کر دیا گیا اور مسلمانوں پر اتنا ڈر تھا کہ وہ چھپے ،مارے اوربھاگتے پھرتے تھے ، ایک تاتاری عورت نے ایک مسلمان مرد کو دیکھا اور کہا کہ خبر دار تو یہاں سے ہلا وہ اُس کے ڈر سے وہیں کھڑا رہ گیا اور وہ عورت اپنے گھر جاتی ہے اور کھنجر لاتی ہے اور اُس کھڑے مسلمان کو قتل کر دیتی ہے ۔
تاتاریوں کے مظالم
اتنا ظلم کیا گیا مسلمانوں پر بہت بُرا حال تھا ۔ تاتاری جس شہر میں جاتے مسلمان وہ شہر خالی کر دیتے ۔لہذا ”دربند“ایک شہر تھا اُس کا جو بادشاہ تھا اُس کا شہزادہ اپنے دوستوں کو لیکر وہ اُس مقام پر ایک خالی شہر میں آیا جہاں بہت بڑی بستی تھی مسلمانوں کی”دربند“ شہر کا نام تھا۔اُس شہر میں آیا اور جب وہ پہنچا اپنے دوست ، سواریاں ، گھوڑے ، شکار کے انتظامات اور عش و عشرت کی چیزیں بھی ہمرا ہ تھیں ۔ اُس علاقے کےمسلمان ان کو دیکھ کر بھا گ کھڑے ہوئےاور وہ شہزاد ہ اُن کا مذاق اُڑانے لگا کہ دیکھو یہ مسلمان بغیر مقابلے کیے ،تلوار یا تیر چلائے ہمار نام سنتے ہی یہاں سے بھا گ گئے ہیں۔
شہزادہ کے محافظوں نے اطلاع دی کہ تمام مسلمان شہر سے چلے گئے ہیں صرف دو لوگ سفید بالوں والےایک بزرگ ہیں اور ایک خادم ہیں دونوں مسجد میں ہیں ۔ شہزادے نےکہا کہ وہ ابھی تک اس شہر سے کیوں نہ نکلے اُنہیں زنجیروں میں جکڑ کر میرے پاس پیش کریں تو اُنہیں زنجیروں میں جکڑ کر پیش کیا گیا ۔ شہزادہ نے اُن بزرگوں سے کہا کہ تمہیں پتہ نہیں کہ میں شہر میں آ رہا ہوں ۔ تو شہزادہ نے کہا کہ تم شہر سے کیوں نہ نکلے تو اُنہوں نے کہا کہ ہم کیوں نکلتے ،ہم تو اللہ کا ذکر کررہے تھے ہمیں کیا! لوگ نکلیں یا نہ نکلیں ہم تو اللہ کو یا د کر رہے تھے۔ شہزادے نے کہا کہ اب تمہیں سزا سے کون بچائے گا۔ جیسے ہی اِ س نے یہ کہا تو بزرگ ایک لمحہ انتظار کیے بغیر کہنے لگے ”اللہ“ ۔ جوں ہی اُنہوں نے کہا ”اللہ “ تو اُن کی ہتھ کڑیاں اور پاؤں کی بیڑیاں کھل گئیں ۔
اہل اللہ کا ادب
شہزادہ یہ دیکھ کر شرمندہ ہوا اور بہت متاثر ہوا کہ یہ کوئی بزرگ ہیں اور پہنچے ہوئے ہیں اور ان کا ادب و احترام کرنا چاہیے ۔ شہزاد ے نے اُن کی یہ کرامت دیکھ کر کہا کہ آپ کو شہر میں رہنے کی اجازت دیتا ہوں اور اپنے لوگوں کو کہا کہ انہیں مسجد میں چھوڑ آؤ۔شہزادہ رات کی تنہائی میں آ کر انہیں ملا کرتا تھا۔ تو اللہ تبار ک و تعالیٰ نے ان بزرگانِ دین کو فراصت دی۔ اللہ تعالیٰ اپنے والیوں کو فراصت دیتا ہے ۔ حدیث قدسی میں ہے ! ”اللہ والوں کی فراصت سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں،اُن کے زبان سے ڈرو ور رحٰمن کی تلوار ہیں“۔ وہ خدا کے نور سے دیکھتے ہیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُنہیں فراصت دی اُنہوں نے اُس فراصت سے جانچ لیا ۔ اُنہوں نے ایک دن شہزادے کو بتایا کہ دیکھ ایک وقت آئے گا تجھے تخت وتاج ملے گا۔ اُس نے کہا اچھا مجھے تاج ملے گا ۔ اُس دور میں بہت ہی کم بادشاہوں کے بیٹوں کو تخت و تاج ملتا تھا ۔
شہزادے نے کہا کہ جب مجھے تاج ملے گا تو میں وعد ہ کرتا ہوں میں اپنے ایمان کا اظہار اُس وقت کروں گا۔ میں ایمان لے آیا ہوں میں نے کلمہ پڑھ لیا ہے اور آج ہی سے میں مسلمان ہو گیا لیکن جب مجھے تخت و تاج ملے گا تو اُس وقت میں اظہار کروں گا تو اُن بزرگان دین دے کہا کہ اگر تو نے اب اظہار کر دیا تو لوگ تجھے قتل کر دیں گے۔
اللہ کی شان دیکھیے! کہ وہ شہزاد ہ اس انتظار میں رہا اور ساتھ ساتھ وہ اپنی دینی تعلیم بھی لیتا رہا اور یوں تیس سال گزر گئے اور پھر اُس شہزادے کی بار ی آئی اور اُسے ملک کا بادشاہ بنا دیا گیااور وہ ملک کا حاکم بن گیا ۔ جب وہ پوری سلطنت کا بادشاہ بن گیا اور ملک کی فوج، پولیس اور ملک کی ہر چیز اُس کے قبضہ میں آ گئی تو اُس نےمسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔
اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے ”اللہ“ کے نام کی برکت سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُن بزرگوں کی زندگیوں کو بچایا اور وہ شہزاد اُن کا ایک غم خوار ساتھی بن گیا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ! یہ اللہ والے کیا کرتے ہیں یہ کرتے ہیں اللہ والے ، اللہ کے نام سے دل کی دنیا بدل دیتے ہیں ، اللہ والے اِ س نام ”اللہ “کی طرف دعوت دیتے ہیں ،دلوں کو بدلتے ہیں اور جب تک دل نہیں بدلیں گے کام سیدھے نہیں ہوں گے اور دل ”اللہ“ کے نام اور ”اللہ“ کی محبت سے بدلتے ہیں ۔
اللہ کی محبت بڑی پیاری چیز ہے اور اللہ کی محبت میں کیا کمال تاثیر ہے کہ جس بندے کو مل گئی یہ وہی جانتا ہے۔”اللہ “کا نام جن کے دلوں میں تھا تو بڑے بڑے بادشاہ اور شہزادے متاثر ہوئے۔
اللہ کے ذکر سے مشکلات کا دور ہو جانا
”اللہ“ کے نام کی طرف رجوع کریں اس نام میں اتنی لذت اور طاقت ہے کہ اس نام کا بار بار ورد کرنےسے بہت سے دُکھ سکھ میں بد ل جاتے ہیں، انسان کے اند ر تبدیلی آتی ہے۔
ہر مرحلہ غم پے ملی تجھ سے تسلی
تیرے نام سے ملی مجھ کو تسلی
ہر موڑ پے گھبرا کہ جب نام لیا تیرا میں نے
مشکلوں کوبھاگتے ہوئے دیکھ لیا میں نے
اے مالک! جب ہر مصیبت ، غم اور تکلیف میں تجھے پُکاراتو ایسی مدد شامل حال ہوئی تو میں خود سوچتا رہا کہ یہ میرے بگڑے کا م کیسے ٹھیک ہوئے ۔
انسا ن کو چاہئے کہ حالات کے اُتار چڑھاؤ سے متاثر ہوئے بغیر بیماری،غمی اور پریشانی ملے تو تب تسبیح پڑھنی ہے؟ انسان کو چاہئے کہ ہر وقت ”اللہ“ کا ذکر کرتا رہے پھر جا کرا ُسے اس نام “ اللہ ” سے لذت اور تاثیر ملے گی۔
ایک لفظ سے کیفیت کا بدل جانا
خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ایک بہت بڑے ولی اللہ تھے ۔ ایک مرتبہ بیٹھے ہوئے لوگوں کو اسم ذات لفظ ”اللہ “ کےذکر کے فضائل سنا رہے تھے۔
کہ اس اسم ذات سے عمر ، مال، رزق اور عزت میں برکت ہوتی ہے ، بہت سی برکتیں اُنہوں نے ذکر کیں۔ بو علی سینا بھی وہاں موجود تھے اسی دوران ایک شخص وہاں بیٹھا ہوا تھا جو عقل میں بہت گھمنڈ کرتا تھا وہ شخص محفل کے اختتام میں کہنے لگا کہ حضرت اس ایک نام لینے سے یہ سارے اثرات کیسے ہو جاتے ہیں ۔ یہ سب کچھ کیسے ٹھیک ہو جاتا ہے ؟ یہ کیسے ممکن ہے ؟تو خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے بس اتنے الفاظ کہے کہ اے گدھے تجھے کیا پتہ تو بھری محفل میں کہ سب لوگ اس شخص کو جانتے تھے وہ شخص پسینہ پسینہ ہو گیا اور بہت پریشان ہوا تو پوچھا کہ حکیم صاحب کیا ہوا پریشان ہو گئے ہیں تو اس شخص نے کہا کہ آپ نے لفظ ہی ایسا بولا ہے کہ مجھے پسینہ آ گیا ہے اور میں اندر سے پریشان ہو گیا ہوں ، میری کیفیت بدل گئی ہے ۔ تو خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا کہ میں نے ایک لفظ گدھا بولا اور تیری طبیعت بدل گئی اور جو ساری کائنات کو بنانے والا ہے اگر اُس کا نام لیا جائے توکیفیت کیوں نہیں بدلتی، برکتیں ، عزت ، صحت کیوں نہیں ملتی۔؟
لفظ ”اللہ“ کی تاثیر
دیکھئے !جب بھی آپ کے سامنے کوئی کھانا آئے گا تو آپ کا دل کرے گا کہ ابھی مجھے یہ مل جائے اور میں اس کھاؤں ۔ تو لفظ ”اللہ“ ایک ایسی تاثیر اور برکت والا نام ہے کہ ایمان والوں کو اس کی چاشنی ملتی ہے اور اس کی چاشنی اتنی لذت والی ہے کہ اگر کہیں سے ایک ایک قطر ہ پانی ٹپک رہا ہو اورنیچے پتھر ہو اور بتائیےکہ اگر پانی ٹپکتا رہے اور اُس پتھر پر سُوراخ بن جائے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ مومن کے دل پر بار بار ”اللہ “ کے نام کی ضربیں لگیں اور اُس دل پر تاثیر پیدا نہ ہویہ دل راستہ بناتا ہے مگر ہم اس کو مقدار کے حساب سے دل میں لیتے ہیں کوئی اتنی اس کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔ جب بھی اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو توجہ سے نہیں کرتے۔
لوگ کہتے ہی کہ یہ اللہ والے مراقبہ کیوں کرواتے ہیں ؟ ذکر کیوں کرواتے ہیں؟ اس کے بغیر تمہیں نماز میں کیفیت نہیں بن سکے گی کیونکہ نماز ایک افضل عبادت ہے جو کہ پانچ وقت فرض ہے اب اس کے لیے اگر جسم ہی تیار نہیں، دماغ ہی تیار نہیں ، سوچ اور فکر ہی کہیں اور ہے ، جسم کہیں ادھر ہلتا ہے کہیں دوسری طرف ہلتا ہے ، بندہ اپنی مرضی سے نماز پڑھتا ہے کیونکہ پورے جسم کی جمعیت قائم نہیں ہے اس لیے کہ دل صحیح طرح نہیں جمع اور دل کو جمعاتی ہیں یہی مجالس ذکر اور دل اسی مراقبے سے ایک مقام پر ٹھہرتا ہے اور پھر جب ایسا نمازی اللہ اکبر کرتا ہے تو پھر اُس کی کیفیت بنتی ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ۔
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا بابرکت نام اس کی بڑی تاثیر ہے اس کی طرف ہم رجوع تو کریں اِ س نام کی طرف جائیں تو ۔ لیکن ہم نے دنیا کان نام لے لے کر اپنے دل کو سیاہ کیا ہوا ہے اور بلکل اس طرف خیال نہیں کرتے۔
ایک ولی اللہ کا اللہ سے محبت کا انداز
حضرت شبلی رحمتہ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ سے بہت محبت کرنے والے تھے بڑے فنا فی اللہ تھے۔ ان کی بڑی عادت تھی کہ ان کے سامنے اگر کوئی بندہ اللہ کا نام پیار سے لیتے تو وہ اپنے پاس کوئی میٹھی چیز رکھتے تھے جوں ہی کوئی اللہ کا نام لیتا وہ اُسے یہ میٹھی چیز دیتے تو ایک دن کسی نے پوچھا کہ حضرت آپ یہ کیا کرتے ہیں جب آپ کے سامنے کوئی اللہ کا نام لیتا ہے تو آپ اُسے میٹھی چیز دیتے ہیں ۔ فرمانے لگے جس منہ سے میرے محبوب کا نام نکلے تو میں اُس منہ کو میٹھا کیوں نہ کروں ۔اور میں اُس کا منہ مٹھاس سے بھر دوں۔ یہ محبت کے انداز ہے سب کے کوئی کس طرح، کوئی کس طرح اپنی محبت کا اظہار اپنےمحبوب سے کرتا ہے۔ کیسی محبت ہو گی اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت اُ ن کے دلوں میں ۔ اللہ پاک اپنی محبت کی حرارت ہمیں بھی اس طرح عطاکرے۔
اللہ کے نام کی برکتیں
برکت والی ہے وہ جس کے ہاتھوں میں تمام حکومت ہے اور ملک ہیں اور اُس کا نام بھی بڑا پاکیزہ ہے ، کہ جب کوئی بندہ اُس کے نام کے ساتھ واصل ہو جاتا ہے تو اُس کی زندگی میں برکتیں آ جاتی ہیں۔اُس کی آنکھیں پاکیزہ ہو جاتی ہیں اُس کے دل دھٹرکتے ہیں ،سانسوں کے لیے نہیں بلکہ اللہ کےذکر لیے ، اُس کی سانسیں چلتی ہیں اللہ کے لیے ،اُس کی سوچیں کسی چیز کے حصول کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی جستجو کے لیےہوتی ہیں، وہ تڑپتا رہتا ہے اس لیے نہیں کہ مال مل جائے بلکہ اس لیے کہ اللہ کی محبت میں اضافہ ہو جائے یہ ہےتاثیر اللہ کے نام کی کہ یہ انسان کو بدل دیتی ہے ۔ اس زمین پر چلتے پھرتے لاکھوں ، کروڑوں میں سے کسی کو چن لیا جاتا ہے ۔ اللہ کے نام کی بہت فضیلت ہے ۔
فنا ہو کے ذات ِ بقا مل رہا ہے
خود کو مٹا کے خدا مل رہا ہے
جب کوئی اپنے آپ کو مٹا دیتا ہے ، اپنے آپ کو غرق کر دیتا ، اس واحدانیت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے وہ ابدی حیات پا جاتا ہے ۔ اللہ کے نام کی تاثیر کمال چیز ہے۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت ِ آشنائی
اب جس کو یہ لذت اور محبت ملے گی اُسے پتہ چلے گا۔ ہماری زندگیوں میں اللہ تعالی ٰ کے نام کی برکت آ جائے تو ہم اُس وقت تک اس برکت کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک ہمارے دل میں اسم ِ اعظم ”اللہ “ کی محبت پیدا نہیں ہو جاتی اور اللہ تعالیٰ سے آشنائی کی لذت ہی عجیب ہے ۔ یہ نعمت مانگنے کی چیز ہے۔ اللہ کے بندے مانگتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے کیا چیز مانگیں
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نےیہ محبت مانگنا سکھلائی ہے ۔ ہم کیوں دور ہیں اس کو مانگنے سے ؟ہم دنیا کی چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگتے ہیں؟ ، اللہ سے بڑی چیز مانگیں ،اللہ کے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے یہ مانگو!
اللَّهُمَ إِنِّي أسألُكَ
اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں، مجھے تیری محبت چاہیے۔ لیکن ہم کیا مانگتے ہیں !کہ یا اللہ لمبی زندگی دے دے ۔ لمبی زندگی میں اگر گناہ زیادہ ہوئے تواور عذاب، اے اللہ مجھے دولت دے دے اور اگر اُس سے گناہ کی طرف گیا تو عذاب ۔ اللہ تعالیٰ سے اللہ کی محبت کا سوال کرنا چاہیے ۔ یہ وہ نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے پیارےبندوں میں تقسیم کرتا ہے اور اپنے مخصوص کو دیتا ہے اور کروڑوں ، اربوں لوگوں میں سے کچھ کو چُن لیتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنی محبت دیتا ہے ۔کیوں نہ ہم اللہ سے یہ دعا کریں کہ اے اللہ جن لوگوں کو تُو نے اپنی محبت دی ہے اُن کے صدقے ہمیں بھی اپن محبت دے دے ، اپنی معرفت دے دے، اپنی پہچان دے دے ، اپنا ذکر اور اپنی اطاعت دے دے۔
اللہ کی محبت ایک عظیم نعمت
جس کو یہ نعمت مل جائے گی تو یاد رکھناکہ یہ نعمت اُس کے سینے کو روشن کر دے گی ، اس محبت میں ایک ایسا وقت آ جائے گا کہ جب بندہ اللہ کو بھُلانا بھی چاہے تو بھُلا نہیں سکےگااس کو کہتے ہیں ”مقام ِ فنا “۔ کیونکہ جب وہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اُس کی تنزلی نہیں بلکہ آگےترقی ہے کیونکہ اُس بندہ نے اللہ کا اتنا ذکر کیا اور اللہ کو اتنا یاد کیا کہ اب اُسے فنائیت مل گئی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ پرانے وقتوں میں لوگ مٹی چھتوں پر لگایا کرتے تھے اور یہ نہیں کہ وہ مٹی کو اُٹھا کر لے جاتے بلکہ اُس مٹی کو پوری محنت اور کوشش سے گوندتے تھے جیسے گھر وں میں عورتیں آٹا گوندتی ہیں اور خُو ب محنت اور کوشش سے گوند کر پھر روٹی بناتی ہیں کبھی بھی خُشک آٹے سے روٹی نہیں بنے گی ۔
اسی طرح جب اس دل کو اللہ کے ذکر سے گوند گوند کر اللہ کےسامنے رکھا جاتا ہے اور اس دل کو کُوٹ کُوٹ کر اللہ کی محبت میں غرق کیا جاتا ہے اور اپنی آنکھوں کو جھکا جھکا کر اللہ کی محبت کو تلاش کیا جاتا ہے اور اللہ کی محبت کو تلاش کرتے کرتے اپنے سر کو جُھکا کے ہڈیوں میں خم ڈال لیا جاتا ہے اور اللہ کا ذکر ذکر کرتے اُس کی جوانی پاکیزہ ہو جاتی ہے ۔ اللہ کا ذکر کرتے کرتے وہ گناہوں سے دور ہو جاتا ہے ۔
دنیا کی محبت
سوچئے ذرا ! کہ بھلا اب اُس کے دل میں اب دنیا کی محبت کیسے آئے گی بلکہ اب تو اُس کے دل میں اللہ کی ہی محبت ہی آئے گی اور اس کے بغیر اب کوئی چیز نہیں آ سکتی ۔گناہ اللہ سے دور کرتے ہیں ، برائی اللہ سے دور کرتی ہے ، فحاشی وعریانی ،زنا و بدکاری اور مستی یہ سب اللہ تعالیٰ سے دور کرنے والی چیزیں ہیں۔ اللہ کی محبت اگر صحیح معنوں میں چاہتے ہو تو پھر اللہ سے پیار اور محبت کرو یعنی اس دل میں اللہ کی محبت کی ایسی جڑ لگ جائےکہ جس طرح درخت کی جڑ جتنی مضبو ط ہو گی وہ اُتنا ہی زیادہ مضبوط ہو گااُسے آندھیاں اور طوفان نہیں گرا سکتے ، چھوٹے چھوٹے درخت تھوڑی سی آندھی اور طوفان سے گر جاتے ہیں لیکن جن کے دلوں میں اللہ کی محبت راسخ ہو گئی ہو وہ بہت مضبوط ہو جاتے ہیں ۔
اللہ کی محبت کو فنا نہیں
اللہ کی محبت فانی نہیں ہے یہ واپس نہیں لوٹ کر جاتی ۔ جب کوئی بندہ بالغ ہو جائے تو پھر وہ نابالغ نہیں ہو سکتا تو اسی طرح جب بندہ اللہ کی محبت میں فنا ہو جائے تو اب پھر وہ واپس نہیں جا سکتا اب اُس نے آگے ہی جانا ہے ۔ نوافل کے ذریعے بندہ اللہ تبارک و تعالیٰ قریب ہو جاتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے ۔جیسا کہ پہلے بیا ن ہو چکا ہے کہ ”میں اس کے ہاتھ، پاؤں اور آنکھیں اور کان بن جاتا ہوں“۔
شیطان اس پر اپنا داؤ چلانا چاہتا ہے لیکن نہیں چلا سکتا ، شیطان بندوں کے رُوپ میں آتا ہے ۔یاد رکھنا !اگر شیطان بندوں کے رُوپ میں آئے تو اُس سے بچنا ، شیطان وسوسوں میں آتا ہے بچنا اُس سے ، شیطان دنیا کی محبت پیدا کر ے گا ، شیطان آپ کو برائی کی طرف دعوت دے گا ، شیطان آپ کو برے کام پر لگائے گا ، اگر بندہ ہی بظاہر اُس کا آلہ کار بنے گا وہ اُسے گناہوں کی طرف لے جائے گا بظاہر وہ دوست ہو گا اور بڑا قریبی ہو گا لیکن وہ دوست آپ کو گناہ کی طرف لے جائے گا سمجھ لینا کہ اُس وقت شیطان کھیل ،کھیل رہا ہے ۔ اگر کوئی آپ کو اللہ کی طرف بُلائے اور اللہ کی دعوت دے تو سمجھ لینا کہ رحمٰن کی مدد نازل ہو گئی ہے ۔
میرے روحانی دینی بھائیو! یہ اسم اعظم ”اللہ “ عام چیز نہیں ہے ۔ یہ خواص کو ملتا ہے اور جس کو مل جاتا ہے تو پھر بالکل انسان اس وقت کسی اور چیز کی طرف توجہ نہیں کرتا۔
امام احمد بن حمبل رحمتہ اللہ علیہ کا آخری وقت
امام احمد بن حمبل رحمتہ اللہ علیہ جیسی شخصیت، علم بھی ہے ،عمل بھی ہے اور اخلاص بھی ہے صاحبِ مذہب بزرگ ہیں ۔ موت کے وقت شیطان ان پر حملہ کرنے سے بعض نہیں آتا ۔ یاد رکھیئے ! یہ شیطان آخری وقت بھی وار کرے گا۔کیسے بچا جا سکتا ہے ، ہم تو بڑے دعوے کرتے ہیں۔ امام احمد بن حمبل رحمتہ اللہ علیہ جیسی عظیم شخصیت پر یہ وار کرتا ہے ، جب آپ پر نزع کی کیفیت طاری ہوئی تو آپ کے شاگرد نے آپ کے سامنے کلمہ پڑھنا شروع کر دی ” لا الا اللہ “ تو یہ صرف کہیں”لا “اور بار بار ایسا ہو ا تو وہ شاگرد پریشان ہو گئے کہ ساری زندگی ہمارے شیخ نے ہمیں کلمہ کی تعلیم دیتے رہے اور اب یہ بیمار ہوئے اور ہم نے کلمہ پڑھا تو یہ کہتے ہیں”لا “ہر شخص پریشان کہ ہمارے شیخ عالم اور فقہی ہیں لیکن آخری وقت میں”لا “ کہتے ہیں ۔ کلمہ جاری نہیں ہو رہا۔
اللہ کی شان دیکھیں حضرت کی طبعیت سنبھل گئی اورتھوڑے سے بہتر ہو گئے اور ایک شاگرد نے ہمت کر کے پوچھا کہ ہم کلمہ پڑھ رہے تھے اور آپ ”لا “ کہہ رہے تھے ۔ آپ نے فرمایاکہ سنو اُس وقت شیطان میرے سامنے تھا اور مجھے بہکا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ امام احمد بن حمبل تم ایمان بچا کر دنیا سے چلے تو میں نے کہا نہیں ”لا “وہ بار بار یہ کہہ رہا تھا میں اُس کو ” لا“ کہتا تھا ” نہیں “ تم جھوٹے ہو ، مردودجب تک میری سانس نکل نہیں جاتی اُس وقت تک میں امن میں نہیں ہوں ، اُس وقت تک میں نے تیری چال میں نہیں آنا اور جب میری سانس نکل جائے گی تو پھر میں کامیاب ہو جاؤں گا۔
شیطان کا آخری حملہ
موت کا وقت اتنا باریکی کا وقت ہے کہ شیطان پورا حملہ کرتا ہے ۔ اگر ہم اُس وقت سے بچنا چاہتے ہیں تو ابھی سے اپنے ایمان کی حفاظت کریں اور اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے منور کیجئے اور اسی سے اصل زندگی بنے گی ۔اگر اس نام ”اللہ “ کی برکت مل گئی اور اسی سے زندگی کا راز ملے گا۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا چراغ ِ زندگی
اے انسان ! تو اپنی خیر خواہی کر تو دنیا کے لیے مارا مارا پھرتا ہے ۔تُو اپنے جسم کو جہنم کی آگ سے بچانے کی تدبیر کیوں نہیں سوچتا ؟ اللہ کے نام کی بڑی برکت ہے کہ جو ہمیں ہر چیز سے محفوظ کرے گی ۔
اللہ کے ذکر سے رحمتوں کا آنا
اللہ کے ذکر سے آپ کی زندگی پُر تاثیر ہو جائے گی اس نام کی تاثیر ضرور ملے گی انشااللہ ۔ اللہ اپنے بندوں کو دیتا ہے ہم طلب تو کریں ، ہم اللہ تعالیٰ کے طالب تو بنیں ،دنیا کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں اور وہ دنیا کی ڈگریاں ہاتھ میں اُٹھا لیتے ہیں ۔ اللہ کے نام کے لیے نکلیں اس راہ کے مسافر بنیں تو پھر اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمتیں آپ کو لپیٹ لیں گی۔
اللہ کا ذکر کرنے کا طریقہ
جب بھی ”اللہ “ کا ذکر کریں تو محبت کے ساتھ، یکسوئی کے ساتھ ، آنکھیں بند کر کے اور دل پر توجہ کر کے ذکرکیا کریں ، بسمہ اللہ شریف اور درود پاک پڑھا کریں اور خُوب اللہ کی طرف رجوع کیا کریں کہ اب میں مالک کی طرف رجوع کر گیا ہوں ،دینا سے بیگانا ہو گیا ہوں ، دنیا سے جُدا ہو گیا ہوں اور صرف اللہ کو یاد کر رہا ہوں اوراللہ کی طرف میں نے رجوع کر لیا ہے تو پھر آپ کو بہت لذت ملے گی۔ ذکر کے وقت زبان اور دل کی ایک لڑی بن جائے ، ایک کیفیت بن جائے اور دل میں یہ تمنا رہے کہ جس مالک کو میں پکار رہا ہوں وہ بس مجھے اپنا بنا لے ، میں اُس کا ہو جاؤں، میں اُس کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرنے والا بن جاؤں ۔ بس یہ سوچ آپ میں آ گئی تو اس نام ”اللہ “ کی تاثیر آپ کو ملے گی۔