میلاد النبی ﷺ
میلاد النبی ﷺ
سب تعریفیں اللہ تعالٰی کیلئے ہیں جس نے ۱۲ ربیع الاول شریف کی صبح مستنیر کو حضرت محمد مصطفی ﷺکو عروس جمال کی سفیدی سے ظاہر فرمایا اور افلاک کمال پر بروج جمال سے سورج اور قمر منیر کو طلوع کیا اور عالم قدیم میں سید الکونین ﷺ کو بطور حبیب، آخری نبی ﷺاور رسولﷺ منتخب فرمایا۔ عالم وجود کی تمام مخلوقات سے آپ کی تعظیم و توقیر کیلئے وعدے حاصل کیے۔ آپ ﷺ کے رخ تاباں کے جمال کمال کی عظمت کیلئے بطون کو پیدا فرمایا۔ آپ ﷺ کے ظہور اور مدت حمل کیلئے ان کو منتخب کیا۔ اس نفیس نفس، در یتیم اور خوبصورت روح کے موتی کی حفاظت کیلئے اللہ تعالیٰ نے ان کو سمندر بنایا اور ان میں سے بعض کو اپنی حکمت تقدیر سے شیریں اور بعض کو تیز کھاری پانی والا بنایا ۔ آپ ﷺ کو مجتبیٰ بنایا۔ آپ ﷺ کو غلاظت و شیطانی وسوسہ سے محفوظ اور مطہر کیا۔ حضرت آدم. حضرت نوح ، حضرت شیث، حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی پشتوں میں منتقل فرمایا۔ ہر نبی آپ ﷺ کے ذریعہ سے ہی پناہ کا طلبگار ہوا۔ ہر ایک سے آپ ﷺ پر ایمان لائے اور آپ کی نصرت واعانت کرنے کا عہد و میثاق لیا اور یہ بات قرآن کریم میں مرقوم ہے۔
حضور نبی کریم ﷺکا وسیلہ
ولادت کے وقت کے معجزات
فارس کی آگ حضور نبی کریم ﷺ کے نور سے بجھ گئی ۔ تمام شاہی تخت اپنے بادشاہوں سمیت لرز گئے اور تاج اپنے بادشاہوں کے سروں سے گر گئے ۔ آپ ﷺ کے ظہور کے وقت بحیرہ طبر یا پُر سکون ہو گیا۔ کتنے ہی چشمے ظاہر ہوئے اور اُبل پڑے۔ ایوان ِکسریٰ میں شگاف پڑ گیا اور اس کے کِنگِرے گر پڑے۔ ساتوں آسمانوں کے فرشتوں نے حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت کی ایک دوسرے کو خوشخبری دی۔ آسمان آپ ﷺ کے شرف کیلئے محفوظ کیے گئے۔ آپﷺ کے اکرام کیلئے چوری چوری سننے والے شیاطین جنات کو شہاب کے ذریعہ رجم کیا گیا۔ ابلیس چیخا اور اس نے اپنے لیے سخت مصیبت و ہلاکت کو پکارا۔
حضور نبی کریم ﷺکا وسیلہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی تو بہ آپ ﷺ کے باعث قبول کی اور حضرت ادریس علیہ السلام کو سرکار دو عالم ﷺکے طفیل اپنی طرف او پر اٹھایا ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی میں آپ ﷺ کے توسل سے قربت الہیہ حاصل کی ۔ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی دعا میں آپ ﷺ کے ذریعہ سے پناہ مانگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آپ کے واسطہ سے بارگاہ الہی میں سفارش کی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے آپ کے وسیلہ سے عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کی۔ حضرت موسی علیہ السلام نے آپ ﷺ کی گفتگو کے متعلق اپنی قوم کو اطلاع دی اور رب کریم سے آپ ﷺ کا امتی و وزیر ہونے کی درخواست کی۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے آپ ﷺ کی تشریف آوری کی خبر دی اور آپ کے زمانہ تک کی مہلت طلب کی تاکہ ان کے مددگار ہو سکیں۔ مذہبی پیشواؤں نے آپ ﷺ کی آنے کی خبر دی اور کا ہنوں نے بھی آپ ﷺ کے متعلق اعلان کیا۔ جِن آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان لائے۔ آیات قرآنیہ آپ ﷺ کے اسم گرامی کے متعلق شاہد ہیں۔
حلیہ مبارک مصطفی ﷺ
جب محمد رسول اللہ ﷺ کی ولادت ہوئی تو آپ مخلوق میں دولہا کی مانند ایسے چہرہ کے ساتھ ظاہر ہوئے جو ظہور میں چاند کے مشابہ ہے۔ ایسے بالوں کے ساتھ جو اپنی سیاہی میں تاریکی کی طرح ہیں ۔ ایسی جبیں کے ساتھ جس سے نور و روشنی نکلی۔ ایسے قد کے ساتھ کہ اس کے ساتھ حسن و جمال مطمئن ہو اور ایسے ناک کے ساتھ جو تیز تلوار کی دھار کی شہرت سے احسن ہے۔ ایسے دو ہونٹوں کے ساتھ جو مثل عقیق ہیں۔ ایسے دانتوں کے ساتھ جو بکھرے ہوئے موتیوں کے مشابہ ہیں ۔ ایسی پیشانی کے ساتھ جو رونق ونور میں چاند کی مانند ظاہر ہوئی اور ایسے سینہ اطہر کے ساتھ جو معرفتِ الہی کے ساتھ معمور ہو گیا۔ ایسے دونوں ہاتھوں کے ساتھ جن سے جنت کا پانی پھوٹ نکلا ، ایسے قدم کے ساتھ جس کیلئے یقیناً حصول سعادت میں تاثیر ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت کے وقت کائنات مضطرب ہوگئی جبکہ آپ ﷺ مخمور تھے۔ سعادت مندی عالم وجود پر پھیلی اور ایمان کا وطن مستور ہو گیا۔ تمام اہل کائنات کی طرف وحی کی بشارت دینے والا تشریف لایا۔ قاری الوصل نے پڑھا اور اقطارِ عالم میں جمِ غفیر کو پکارا۔
قرآن مجید میں نبی کریم ﷺ کے صفات حمیدہ
اَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا(۴۵)وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا(۴۷) وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ دَعْ اَذٰىهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا(۴۸) (سورۃ الاحزاب)
ترجمہ:” اے نبی ﷺ! ہم نے آپ ﷺ کو شاہد، مبشر نذیر، اس کے اذن سے اللہ کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر ارسال کیا اور مومنوں کو خوشخبری دیجئے کہ یقینا ان کیلئے اللہ کی طرف سے فضل کبیر ہے۔ کافروں اور منافقوں کی پیروی نہ کیجئے اور ان کی طرف سے اذیت کا خیال نہ کیجئے ، اللہ پر توکل فرمائیے اور اللہ ہی نگہبان کافی ہے ۔”
ولادت کے وقت خوبصورت آثار
ترجمہ: ” صبح ہدیات نے عالم وجود کو سرور سے بھر دیا جب حبیب اللہ ﷺ کا چہرہ روشن ظاہر ہوا۔ اے ماہ ربیع تو نے ایسے باعزت چاند کو طلوع کیا جو کمال کے ساتھ تمام چودھویں رات کے چاندوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ اے ماہ ربیع تو احمد مصطفی ﷺ کی ولادت کے ساتھ آیا اور یقیناً ہمارے پاس مسرت کے ساتھ بشارت دینے والا آیا۔ آپ ﷺ کے ظہور کے وقت پرندے خوشی سے گنگناۓ اور شاخیں تھیلیاں بن کر جھکیں ۔ نذیر کی حیثیت میں احمد مجتبی ﷺ کی تشریف آوری کے باعث بادِ نسیم مبشر و معطر بن کر آئی۔
وَالْحُورُ فِي غُرَفِ الْجِنَانِ تَبَاشَرْتِ وَقَضَتْ بِمِيلَادِ النَّبِيِّ نُذُورًا لَمَّا بَدَا وَجْهُ الْحَبِيبِ تَلَأَلَأَتْ كُلُّ الْبُقَاعِ وَقَدْ نَطَقْنَ شَكُورًا وَرَأَتْهُ آمِنَةُ يُسَبِّحُ سَاجِدًا عِنْدَ الْوِلَادِ إِلَى السَّمَاءِ مُشِيرًا وَانْشَقَّ إِيوَانُ لِكِسْرَى جَهْرَةً وَغَدَا حَزِينًا فِي الْأَنَامِ كَسِيرًا وَتَسَاقَطَ الْأَصْنَامُ عِنْدَ وِلَادَهُ وَتَصَعَّدَ الْكُهَّانُ مِنْهُ زَفِيرًا
ترجمہ: ترجمہ: “حوروں نے جنت کے بالا خانوں میں ایک دوسرے کو خوشخبری دی اور میلاد النبی ﷺ ہونے کے باعث انہوں نے نذروں کو پورا کیا۔ جب چہرہ حبیب ﷺ ظاہر ہوا تو تمام طبقات زمین جگمگا اٹھے اور شکر گزاری بیان کی۔ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو ولادت کے وقت سجدہ کی حالت میں تسبیح پڑھتے ہوئے اور آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا۔ کسری کا محل بلند آواز کے ساتھ شق ہو گیا اور وہ مخلوق میں ٹوٹا ہوا نمکین و آرزردہ ہو گیا۔ آپ ﷺ کی ولادت کے وقت بُت اوندھے گر گئے اور آپ ﷺ کی تشریف آوری کا چارسو شور مچ گیا۔
ترجمہ:حضور نبی کریم ﷺ کی شب ولادت کو ایران کے بادشاہ کا محل پھٹ گیا۔ وہ آزمائشوں اور مصائب میں مبتلا ہو گیا۔ شیاطین کو آسمان کی طرف چڑھنے سے منع کر دیا گا اور ان کے کانوں کو بلندی سے سننے کی غرض سے بہرہ کر دیا گیا۔ وہ ہر طرف سے دھتکار دئیے گئے اور ان کیلئے دائمی عذاب ہے یہ سب کچھ اس نبی کریم اور رسول معظم ﷺ کی حرمت کیلئے جس پر تو نے اپنی محکم کتاب عزیز میں نازل فرمایا ہے:
اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِ ﹰالْكَوَاكِبِ(۶) (سورۃ الصفٰت)
ترجمہ: بے شک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے سجایا ہے۔
سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کی زبان سے ولادت کا بیان
سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کی زبان سے ولادت کا بیان
سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب میں نے اپنے لخت جگر محمد مصطفی ﷺکو جنم دیا تو میں نے ان کو سر مگیں آنکھوں والا ، مدھون ( تیل لگا ہوا) ناف بریدہ، خوشبو والا اور ختنہ شدہ جنا، اللہ تعالٰی نے اس کیلئے سینہ کو کشادہ کیا اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اٹھا کر بحروبر کی سیر کرائی اور دائیں وبائیں اطراف سے ملائکہ نے گھیرے میں لے لیا اور انہوں نے جبیں وآبرو کو دیکھا جو حسن، نور، ضیا اور عِطر پر فائق ہے۔ دانت کو دیکھا کہ اس سے اللہ تعالٰی نے قلوب عاشقین کو مدہوشی ودیعت فرمائی ۔ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے بلندی سے آواز سنی جو آپ کو ندا دے رہی ہے۔ اے آمنہ ! آپ کو بشارت ہو یہی وہ حسنین کریمین رضی اللہ عنھما کے نانا جان اور سیدہ زہراء سلام اللہ علیہھا کے والد محترم ہیں ۔ آپ ﷺ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن (مبارک) میں سری و جہری طور پر تسبیح الہی پڑھتے تھے۔ سبحان ہے وہ ذات جس نے اس نبی مکرم ﷺکو سلطان الانبیاء پیدا فرمایا اور اس کیلئے شرف و ذکر کو عالم ملکوت میں بلند فرمایا۔
ولادت پر خوش ہونے اور خرچ کرنے کا انعام
وَجَعَلَ لِمَن فَرَحَ بِمَوْلِدِهِ حِجَابًا مِنَ النَّارِ وَسِتْرًا وَ مَنْ أَنفَقَ فِي مَوْلِدِهِ دِرْهَمًا كَانَ الْمُصْطَفَىٰ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ شَافِعًا وَمُشَفَّعًا وَأَخْلَفَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِكُلِّ دِرْهَمٍ عَشْرًا فَبَشِّرًا لَكُمْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ لَقَدْ نَلْتُمْ خَيْرًا كَثِيرًا فِي الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ
ترجمہ: “ہر وہ شخص جو آپ کی ولادت کے باعث خوش ہوا، اللہ تعالٰی نے اس کیلئے آگ سے محفوظ رہنے کیلئے حجاب اور ڈھال بنائی، جس نے مولد مصطفی ﷺ کیلئے ایک درہم خرچ کیا تو آپ ﷺ اس کیلئے شافع و مشفع ہوں گے اور اللہ تعالی ہر درہم کے بدلہ دس درہم معاوضہ دے گا ۔ اے امت محمدیہ ﷺتجھے بشارت کہ تو نے دنیا و آخرت میں خیر کثیر حاصل کر لیا۔
میلاد کی خوشی میں جنت
جو احمد مجتبی ﷺ کی ولادت کیلئے کوئی عمل کرتا ہے تو وہ سعادتمند ہے اور خوشی، عزت اور خیر و فخر کو پالے گا۔ جناب عدن میں موتی سے مرصع تاج اور سبز لباس کے ساتھ داخل ہوگا، اس کو محل عطا کیے جائیں گے جو بیان کرنے والے کیلئے شمار نہیں کیے جائیں گے ۔ ہر محل میں کنواری حور ہے۔ خیر الانام ﷺ پر صلوۃ بھیجو، یقینا آپ کی ولادت کے باعث بھلائی عام پھیلائی گئی اور جس نے بھی آپ ﷺ پر ایک دفعہ صلوۃ بھیجی ہمارا رب کریم اس کو دس مرتبہ جزا دے گا۔
صَلُّوا عَلَی النَّبِی
اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمَ
پیر کے دن کی اہمیت
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت پیر کو ہوئی۔ اسی دن نبوت عطا کی گئی۔ اسی دن مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اسی دن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے عقد نکاح کیا اور رسول اللہ ﷺ جمعرات اور پیر کو روزہ رکھتے تھے اور سوموار کے دن ہی آپ کا وصال باکمال ہوا۔
تنگدستی کا علاج
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر ما یا : ” جو تنگ دستی کی حالت میں ہو، وہ مجھ پر کثرت سے صلوۃ و سلام بھیجے ۔ درود شریف کہ ذریعہ اس تنگ دست کا ٹھکانہ مکرم ہو جائے گا، آخرت میں اسکو شرف بخشا جائے گا اور شفاعت کے ذریعہ اسکی رضا اور آرزو پہنچائی جائے گی۔
اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمَ
خصائص مصطفی ﷺ
رسول اللہ ﷺ اپنی ذات کے اعتبار سے تمام مخلوق میں سے بہتر ، پاکیزہ دل ، قول کے زیادہ سچے فعل کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ تزکیہ کرنے والے، کثیر الاصل، ایفاء عہد کے پکے، ذی مرتبہ وفضل تخلیق کے لحاظ سے احسن اور شرافت کے لحاظ سے زیادہ پاکیزہ ، شیریں کلام ، سلام کرنے میں زکی جلیل القدر عظیم الفخر، کثرت سے شکر کرنے والے ، رفیع الذكر، حکم میں اعلیٰ جمیل الصبر ، خوشحالی کے زیادہ قریب ، مرتبہ میں افضل، ایمان میں اول، بیان زیادہ واضح ، خوشی میں زیادہ خوبصورت، حیات دنیا و قبر کے لحاظ سے آپ تمام سے زیادہ منور ہیں۔
توسل انبياء
حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے قصور کو معاف کرانے کیلئے حضور نبی کریم ﷺ کے ذریعہ سے ہی اللہ تعالٰی کا تقرب حاصل کیا اور حضرت حواء علیہا السلام نے آپ ﷺ ہی کی ذات بابرکت کے ذریعہ سفارش کرنے کو عرض کی۔ حضور نبی کریم ﷺ کے ذریعہ حضرت نوح علیہ نے طوفان میں دعا کی جب پانی ان پر بلند ہوا تو ان کی دعا قبول کر لی گئی۔ حضور نبی کریم ﷺ کی وجہ سے خلیل اللہ علیہ السلام نے اس آگ سے نجات پائی جس کو دشمنوں نے اذیت پہنچانے کیلئے روشن کیا تھا۔ حضور نبی کریم ﷺ کے وسیلہ سے حضرت اور لیس علیہ السلام نے دعا مانگی تو کفیل کی صفت سے متصف اللہ تعالی کے نزدیک رتبہ عالی اور زیادہ ہوا۔ حضور نبی کریم ﷺ ہی کے ذریعہ حضرت اسماعیل علیہ السلام آزاد کیے گئے اور آپ کیلئے جنت سے دنبہ لایا گیا جیسا کہ قرآن کریم اس قربانی پر شاہد ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کو ہ ِ طور پر محمد مصطفی ﷺ کی وجہ سے کامیاب ہوئے جبکہ ان کے پاس نداۓ ربی آئ۔ انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور زبور حضرت داؤد علیہ السلام آپ کے فضل کی شاہد ہیں اور کتنے ہی آپ ﷺ کیلئے فضل اور بلندیاں ہیں ۔ توریت کے الفاظ مصطفی ﷺ کی بعثت پر شاہد ہیں اور اس میں آپ ﷺ کی ثناء موجود ہے۔ اللہ اکبر!کس قدر آپ ﷺ کی شان و عظمت اکمل ہے، ان میں سے بعض ( عظمتوں ) پر عقلمند حیران ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے اتنی مرتبہ آپ ﷺ پر ساتوں بلند آسمانوں میں رحمت نازل فرمائی جتنی بار شام صبح کے بعد آتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ نور محمدی ﷺ اور نور یوسف علیہ السلام کی صلب آدم علیہ السلام میں اس طرح تقسیم ہوئی کہ حسن و جمال حضرت یوسف علیہ السلام کیلئے اور نور کمال، خوبصورتی، نبوت، شفاعت، قرآن، ذکاوت مہر نبوت، سایہ کرنے والا بادل کا ٹکڑا، جمعہ، جماعت ، مقام محمود، حوض کوثر اور قضیب اونٹنی حضرت ﷺ کے کیلئے ہیں ۔
اسم محمد واحمد کی برکات
رسول اللہ ﷺ اپنی ذات کے اعتبار سے تمام مخلوق میں سے بہتر ، پاکیزہ دل ، قول کے زیادہ سچے فعل کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ تزکیہ کرنے والے، کثیر الاصل، ایفاء عہد کے پکے، ذی مرتبہ وفضل تخلیق کے لحاظ سے احسن اور شرافت کے لحاظ سے زیادہ پاکیزہ ، شیریں کلام ، سلام کرنے میں زکی جلیل القدر عظیم الفخر، کثرت سے شکر کرنے والے ، رفیع الذكر، حکم میں اعلیٰ جمیل الصبر ، خوشحالی کے زیادہ قریب ، مرتبہ میں افضل، ایمان میں اول، بیان زیادہ واضح ، خوشی میں زیادہ خوبصورت، حیات دنیا و قبر کے لحاظ سے آپ تمام سے زیادہ منور ہیں۔
آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی شان
آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی شان
اے آمنہ ! بشارت اور مبارک ہو کہ سید العالمین ﷺ کو آپ نے جنا ہے ۔ اے آمنہ ابشارت ہو کہ آپ نے اولاد عدنان کے سردار محمد ﷺ کے ذریعہ سے آرزو کو پالیا۔ سیدہ آمنہ کو کنگھی کرنے والیاں آئیں اور فرشتوں کو حکم ہوا کہ ان کو دائیں طرف سے پکڑو اور مراتب رضوان کیلئے ان کے ساتھ چلو۔ آپ قمیصوں پر چمکنے والے زرد رنگ کے نئے سنہری لباس میں تشریف لائیں۔ رضا کے دو نئے لباسوں میں اپنے آپ کو کمر بند سے مرصع کیا اور رب کریم نے سیدہ آمنہ کو تمام عورتوں پر فضیلت دی۔ جب سیدہ آمنہ سفیدی میں ظاہر ہوئیں تو گویا کہ ایسا بدرالدجی ہیں جس میں کسی قسم کے نقص کی ملاوٹ نہیں ہے۔ سرخ و سبز نئے لباس میں ظاہر ہوئیں اور (چال وقامت میں ) ہرنیوں اور لچکدار ٹہنیوں پر فوقیت لے گئی۔ آپ کے خدام سونے کی دھونی لے کر آپ کے سامنے آئے۔ آپ ان خدام کے مابین نازو انداز سے چلیں اور کہتی ہیں کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مجھے عطیہ دیا۔ آپ کی مینڈھیوں کو کھول دیا اور بالوں کو ڈھیلا کر دیا، آپ کے اس احسان کو بان درخت کی ٹہنیوں نے حکایہ بیان کیا ۔ ان خدام نے آپ کے ہم نشینوں کو رضا کے تختوں پر اٹھایا حتی کہ آپ کے حسن و جمال کی آرائش سے بے نیاز خوبصورت عورتوں کے درمیان بہت سی حسین و جمیل ہو گئیں۔ آپ کی شادی میں آسمان سے فرشتے نازل ہوئے تا کہ آپ کو چھوٹے موتیوں کے زیورات سے آراستہ کریں۔ اے ابن عبد المطلب اٹھو! تشہیر، اور جلیل الشان خوبصورت چہرہ کو ظاہر کرو۔ اٹھو اور سیدہ آمنہ کو سیف رضا، ہاتھ دراز کر کے دو، سیدہ آمنہ نے سیف رضا کو اطمینان سے لے لیا۔ اے آمنہ ! آپ کو مبارک اور خوشی ہو کہ آپ سید العالمین ﷺ کی والدہ ماجدہ ہوئیں۔ آپ تمام مخلوق سے بہتر مصباح الدجی ( اندھیروں کے چراغ) اپنے پیٹ میں رکھا جو کہ وحی قرآن کے ساتھ مخصوص ہے۔ ایسی مبارک پیدائش جس میں آپ نے درد محسوس نہ کیا اور آپ کو مختون (ختنہ شدہ) حالت میں جنم دیا۔ آپ ﷺ کو مکحول ، مدھون، پاک و صاف اور تمام قسم کے رنگوں سے معطر حالت میں جنم دیا۔ اے نشان ہدایت! اللہ تعالٰی نے اتنی بار آپ ﷺ پر رحمت نازل کی جتنی دفعہ قمر کی تمام جہانوں میں چہچہائی ۔ پھر اللہ سبحانہ و تعالی کا حکم پورا ہوا اور اس نبی کریم عظیم رسول ، بشیر و نذیر اور سراج منیر سید نا محمد ﷺ کے اظہار کے سلسلہ میں مشیت الہی نافذ ہوئی۔ اے رب کریم ! آپ ﷺ کی سفارش کو ہمارے بارے میں قبول فرما۔آمین۔
ولادت پر فرشتوں کا خوشی اور تسبیح کرنا
راوی کہتا ہے کہ فرشتوں نے بارگاہ خداوندی میں تسبیح و تکبیر و تہلیل کے ساتھ آوازوں کو بلند کیا۔ جنت کے دروازے کھول دیئے گئے اور تمام جہانوں کے سردار سیدنا محمد ﷺ کی ولادت کی خوشی کے باعث جہنم کے دروازے بند کر دئیے گئے ۔ اے کریم ! اللہ تعالٰی آپ کی شفاعت کو ہمارے بارے میں قبول فرما۔ جب حمل آمنہ مکمل ہوا تو ہر ماہ آسمان میں کوئی منادی کرتا تھا کہ حبیب اللہ ﷺ کا فلاں فلاں وقت گزر گیا ہے۔
سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کو ہر ماہ انبیاء کا بشارت دینا
سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کو ہر ماہ انبیاء کا بشارت دینا
راوی کہتا ہے کہ حمل آمنہ کے پہلے مہینہ میں حضرت آدم علیہ السلام تشریف لائے اور سید نا محمد خیر الانام ﷺ کے متعلق خبر دی۔ دوسرے ماہ حضرت اور ادریس علیہ السلام تشریف لائے اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے فضل و کرم اور شرف عالی کو خبر دی ۔ تیسرے ماہ میں حضرت نوح علیہ السلام تشریف لائے اور بتایا کہ آپ کا فرزند ارجمند فتح و نصرت کا مالک ہے۔ چوتھے مہینے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تشریف لا کر حضرت محمد مصطفیٰ کے قدر و شرف جلیل کے متعلق آگاہ فرمایا۔ پانچوں مہینہ میں حضرت اسمائیل علیہ السلام نے آکر آپ کو بتایا کہ جن سے آپ حاملہ ہیں وہ صاحب مکارم و عزت ہے۔ چھٹے مہینہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تشریف لا کر محمد مصطفی ﷺ کی قدرو جاہِ عظیم کے متعلق آپ کو بتایا۔ ساتویں مہینہ میں حضرت داؤ د علیہ السلام نے آکر بتایا کہ جس سے آپ حاملہ ہیں وہ مقام محمود، حوض کوثر ، لواء الحمد، شفاعت عظمیٰ اور روزِ ازل کا مالک ہے۔ آٹھویں مہینہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے آکر بتایا کہ آپ نبی آخر الزمان سے حاملہ ہو ئیں۔ نویں مہینہ میں حضرت عیسی علیہ السلام نے تشریف لاکر خبر دی کہ آپ کے فرزند ارجمند قول راست اور دین رائج کے مالک ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نبی نے یہ فرمایا: اے آمنہ! آپ کو بشارت ہو کہ آپ سیدالدنیا والاخرہ ( دنیا اور آخرت کے سردار ) سے حاملہ ہیں اور جب آپ ان کو جنم دیں تو ان کا نام محمد ( ﷺ ) رکھنا۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا وصال
راوی کہتا ہے کہ جب سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حمل کا چھٹا مہینہ شروع ہوا تو حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے اپنے فرزندار جمند رسول اللہ ﷺ کے والد محترم حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا کہ میرے بیٹے اس مولود کی ولادت کا وقت قریب آگیا ہے لہذا مدینہ طیبہ جاؤ اور ہماری خوشی کی ضیافت کیلئے کھجوریں خرید کر لاؤ ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے سفر کی تیاری فرمائی لیکن مکہ ومدینہ کے درمیان انتقال فرما گئے۔ پاک ہے وہ ذات جو زندہ ہے اور اس پر موت وارد نہیں ہوتی ہے۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے وصال پر فرشتوں کی بارگاہِ الٰہی میں عرض
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے وصال پر فرشتوں کی بارگاہِ الٰہی میں عرض
راوی کہتا ہے کہ جب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وصال فرمایا تو فرشتوں نے بارگاہِ خداوندی میں فریادی آوازوں کو بلند کیا اور عرض کی: یاسیدی! مولائی ! الہی ! تیری مخلوق میں آپ کا مصطفی تن تنہا رہ گیا ہے اور اسی طرح جن وانس اور وحشی جانوروں نے عرض کی اور ان میں سے ہر ایک محمد ﷺ کے یتیم ہونے کی وجہ سے محزون ہو گیا۔ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: اے ملائکہ ! رک جاؤ اور اے میرے بندو! خاموش ہو جاؤ، یہ چیز میری قدرت اور ارادہ سے ہے میں اس کے والدین سے زیادہ حقدار ہوں۔ میں اس کا خالق، رازق، محافظ، نگہبان اور اس کے دشمنوں کے خلاف حامی و ناصر ہوں۔ موت میرے بندوں کیلئے حتمی اور لازمی ہے لہذا تم اس سے محتاط رہو کیونکہ موت کسی کو باقی نہیں چھوڑے گی۔ ہر عیب سے وہ ذات پاک ہے جس نے اپنے بندوں کیلئے موت کا حکم ارشاد فرمایا۔
اعضاء مبارکہ کے اوصاف
ترجمہ : اے اہل فلاح ! نبی کریم ﷺ پر صلوۃ بھیجو (اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمَ) جو کہ جہازوں کو چلانے والی ہواؤں کی زینت ہیں۔ اور وہ جس نے یقینا رات کو سفر کیا اور صبح سے پہلے تشریف لایا۔ اللہ کی قسم ! اے اونٹوں کے حدی خوانو! اللہ تعالٰی کے مصطفی ﷺکی طرف تیزی سے چلو ۔ وہ جس کیلئے تاج وشاہی لباس ہے اور فخر و مصالحت کے لحاظ سے بھی سبقت لے گیا۔ تم جنت کے قافلوں کی طرف مائل نہ ہو بلکہ سواریوں کے پیچھے جلدی جلدی چلو، افضل الخلوق کا قصد کرو، تم اہل نجاح ( کامیاب ) ہو۔ اے حلیمہ! تجھے مبارک ہو کہ آپ کیلئے ایک حسین چہرہ ہے۔ اس کے فضائل عامہ کے باعث خوش ہو جاؤ کہ تم نے کامیابی کو حاصل کر لیا۔ آپ ﷺ کا سینہ مبارک چاندی کی طرح سپید و شفاف ہے اور آنکھ شرمیلی وَ حیا والی ہے۔ آپ ﷺ کے خوبصورت دانتوں کے باعث عالی مقامات آپ کیلئے ہیں۔ آپ ﷺ کے بال سیاہ، یمانی، کامل اور صفات محمودہ کی زینت ہیں۔ آپ ﷺ کا حسن میں کوئی ثانی نہیں اور آپ ﷺ کی شان حسینوں کیلئے شان ہے۔ اور ابروز باد درخت سے نون وصاد کی قوسی شکل میں بنائے گئے ہیں، جس دن آپ بندوں کی شفاعت فرمائیں گے ۔ آپ کا ارشاد گرامی علی الاطلاق ( بغیر کسی حد بندی کے ) جائز ہے۔ آپ ﷺ کی پلکوں اور آنکھوں کے بال گل یاسمین کی مانند ہیں ۔ جو کہ پیشانی کے نیچے کاغذ کے اوراق میں ، نون کی مانند قوسی شکل میں ہیں۔ آپ ﷺ کے رخسار سرخ گلابی رنگ کے اور نگاہ خالص پُرنُور ہے۔ قُمری آپ ﷺ کے خصائل محمودہ کے متعلق چہچہائی اور مترنم ہوئی ۔ آپ ﷺ کے رخسار پر تِل ہے اور آپ ﷺ کے کندھوں پر مہر نبوت ہے۔ بادل نے آپ ﷺ پر سایہ کیا اور آپ کا چہرہ اقدس مثل صبح ہے۔ آپ کی ناک کشادہ، ابروؤں میں ظاہر و مخمور اور لعاب دہن بہت ہی شیریں ہے۔ عاشق آپ ﷺ کے عمدہ فضائل کے متعلق مصدق و محقق ہے۔ گردن آپ ﷺ کی انتہائی خوبصورت اور سینہ علوم کا خزینہ ہے۔ اور آپ ﷺکی عمدہ فضیلتیں ثُریا ستاروں کی مانند ہیں۔
كُلُّ عَاصٍ مُسْتَجِيرٌ يَا بَنُّ زَمْزَمَ وَالْبَطَاحِ
ترجمہ : ” ہر گناہ گار محمد رسول اللہ ﷺ سے پناہ کا طلب گار ہے ۔” آپ کی ہتھیلی جو ہر شفاف ہے جس کو انگلیوں نے مزین کیا ہوا ہے۔ اور آپ ﷺ کی سخی، ہتھیلیوں کو ناخنوں کا تاج پہنایا ہوا ہے۔ اے لوگو! کعبۃ اللہ ہر گھڑی روشن و منور ہے۔ یہ محمد ﷺ صاحب شفاعت ہیں اور آپ کے حوض سے پانی ختم نہیں ہو گا۔ نبی کریم ﷺ پر ہزاروں مرتبہ درود ہو، جن کا ذکر باعث مسرت ہے۔ ہر مرتبہ در دو شریف پڑھنے سے دس گنا ثواب ہے جیسا کہ اہل صلاح نے فرمایا ہے۔
!صَلُّوا عَلَی النَّبِی
اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمَ
ولادت سے قبل بارہ راتوں کے واقعات
جب نویں مہینہ ربیع الاول کی پہلی رات ہوئی تو سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کو سرور مسرت حاصل ہوئی ۔ دوسری رات میں آرزو کے پانے کی بشارت دی گئی۔ تیسری رات میں کہا گیا کہ آپ اس سے حاملہ ہیں جو ہماری حمد و شکر بجالائے گا۔ چوتھی رات میں آپ نے آسمانوں سے تسبیح ملائکہ سنی۔ پانچویں رات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے دیکھا کہ اے آمنه ! مدح و عزت کے مالک کے باعث خوش ہو جاؤ۔ چھٹی رات میں فرحت و برکت مکمل ہو گئی۔ ساتویں رات میں نور چمکا اور مدہم نہیں ہوا۔ آٹھویں رات میں جب آپ کے جنم دینے کا وقت ہوا تو فرشتوں نے سیدہ آمنہ کے گرد طواف کیا۔ نویں رات میں سیدہ آمنہ کی سعادت و غنا ظاہر ہوئی۔ دسویں رات میں فرشتوں نے شکر وثناء کے ساتھ “لا اله الا الله” کا ورد کیا ۔ گیارہو میں رات میں سیدہ آمنہ سے مشقت وتعب ( تھکاوٹ) دور ہو گئی۔
ولادت مصطفی ﷺ
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ربیع الاول کی بارہویں رات مجھ میں بچے کی پیدائش کے آثار نمودار ہوۓ اور وہ پیر کی رات تھی بشری تقاضوں کے پیشِ نظر مجھ پر رعب طاری ہوا کیونکہ میں اس وقت تنہا تھی۔ اسی تنہائی کی حالت میں دیوارشق ہوئی اور اس سے ایسی عورتیں تشریف لائیں جو کھجور کے لمبے درخت کی طرح ہیں اور عبد مناف کی بیٹیوں کے مشابہ سفید صنوبر کے درخت کی طرح ہیں اور ان سے کستوری کی خوشبو مہک رہی ہے۔ انہوں نے فصاحب لسانی اور شیریں کلام کے ساتھ مجھے سلام کیا اور کہا: خوف و غم نہ کرو۔ میں نے ان کو کہا : آپ کون ہیں؟ جو ابا انہوں نے کہا: ہم حوا، آسیہ اور مریم بنت عمران (علیہم الصلوۃ والسلام ) ہیں، پھر ان کے بعد دس اور عورتیں داخل ہوئیں تو میں نے ان سے کہا: آپ کون ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم حور عین ہیں اور ولادت سید المرسلین ﷺ کے باعث آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت کے لیے حاضر ہوئی ہیں۔ حضرت آمنہ فرماتی ہیں کہ میں اسی پر نور اور پرکیف کیفیت میں تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میری نگاہ سے حجاب اٹھا دیا، تو میں نے زمین کے مشارق و مغارب کو دیکھا اور تین جھنڈے بھی دیکھے جن کو مشرق ، مغرب اور بیت اللہ کی چھت پر نصب کیا گیا۔ فرشتوں کو فوج در فوج دیکھا۔ سبز رنگ کی ٹانگوں والے اور یاقوت جیسی چونچوں والے پرندوں نے فضا کو بھر دیا جو مختلف زبانوں میں تسبیح الہی کر رہے تھے۔ مجھے پیاس نے غلبہ کیا تو ایک پرندہ جس کے پاس سفید موتی میں سے پانی کا گھوٹ تھا۔ میرے پاس آیا اور بالکل وہی مجھے دیا تو یہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ شیریں تھا، جسے میں نے پی لیا تو میرا دل فرحاں و شاداں ہو گیا اور میں نے اپنے رب کی حمد بیان کی۔الحمدُ للہ رب العالمین۔
حالاات و صفات بعد از ولادت
سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو سرمہ ڈالے ہوئے تیل لگائے ہوئے معطر حالت میں، ختنہ شدہ اللہ عزو جل کو سجدہ کیے ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمانوں کی طرف اٹھائے ہوئے حالت میں جنم دیا۔ آپ ﷺ کا چہرہ اقدس نور سے چمک رہا تھا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اٹھایا اور جنت سے لائے ہوئے ریشمی کپڑے میں لپیٹا اور آپ ﷺ کے ساتھ زمین کے مشارق و مغارب کا طواف کیا۔ سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ کسی کو اعلان کرتے ہوئے سنا کہ آپ ﷺ کو ناظرین کی آنکھوں سے چھپا لیجئے۔
کامل وجود والے نور
ترجمہ: “ماہ ربیع الاول میں سعادت اور ظاہری مسرت بدر تمام (چاند کی پوری چاندی) کے ساتھ آئی۔ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ جب آپ ظاہر ہوئے تو بے شک آپ ﷺ کامل وجود والے نور تھے۔ آپ ﷺ صحیح معنوں میں بارگاہ الہی میں سر بسجود، عاجزی سے دعا کرنے والے اور “لا الله الا الله” کا ذکر کرنے والے تھے۔” میں نے آپ ﷺ کے جسم کو تیل لگانے کا ارادہ کیا تو میں نے جسم کو مدھون (تیل لگا ہوا) اور آپ ﷺ کی پلکوں کو سرمگیں پایا ۔ پردوں کے پیچھے سے میں نے کسی کو یہ کہتے سنا کہ اس کو تمام مخلوق کی نظروں سے اوجھل کر لو اور اس میں غفلت نہ کرو۔ تا کہ فرشتے آسمان میں ان کے سبب خوشی منائیں، اے بنت وہب ! ان کے متعلق غفلت کرنے سے بچو ۔ اس معالمہ کے بعد آپ ﷺ کے دادا جان تشریف لائے تو ان کو ندا دی گئی کہ ابھی داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ ایک بادل کے ٹکڑے نے آکر میرے گھر کو چھتری کی مانند ڈھانپ لیا ہے۔ اس بادل کے ٹکڑے نے آپ ﷺ کو میری آنکھوں کے سامنے سے ایک گھڑی کیلئے لے لیا اور فورا ہی آپ مجھے لوٹا دیئے گئے ۔ میں نے بادشاہوں کو اپنے پاس آتے ہوئے دیکھا جبکہ گھر کا کونہ انتہائی بھونچال زدہ کی طرح گرج رہا ہے۔ میں نے مکہ اور سرزمین مکہ کو دیکھا کہ حالت طرب (خوشی) میں آپ ﷺ کے چہرے کے “لا الہ الا اللہ کہنے والے نور کے باعث رقص کناں ہوگئی۔ میں نے زمین کے تمام خشک و تر مقامات کو دیکھا کہ وہ دلہنوں کی مانند ظاہر ہیں۔ جو کچھ میں نے دیکھا اس کا یہاں تک انکار کرتی رہی گویا کہ میں زبان سے کہنے کی طاقت نہیں رکھتی ۔ میں نے آپ ﷺ کو دودھ پلانے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے رخ انور پھیر لیا، میں نے دوبارہ کوشش کی تو گویا آپ نہیں پینا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ اس وقت ایک شخص یہ کہتے ہوئے ظاہر ہوا کہ آؤ اور تمام مخلوق سے افضل بہتر کو دودھ پلاؤ۔
حضور نبی کریم ﷺ کو عطائے خدا
سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کسی کہنے والے کو سنا کہ محمد ﷺ کو صفوت آدم علیہ السلام مولد شیث علیہ السلام ، شجاع نوح علیہ السلام ، حلم ابراہیم علیہ السلام ، حسان اسماعیل علیہ السلام ، رضاء اسحاق علیہ السلام ، فصاحب صالح علیہ السلام ، رفعت ادریس علیہ السلام ، حکمت نعمان علیہ السلام ، بشارت یعقوب علیہ السلام ، جمال یوسف علیہ السلام ، صبر ایوب علیہ السلام ، قوت موسی علیہ السلام ، تسبیح یونس علیہ السلام ، جهاد یوشع علیہ السلام ، نغمہ داؤد علیہ السلام ، ہیبت سلیمان علیہ السلام ،حب دانیال علیہ السلام ،وقار الیاس علیہ السلام ، عصمت یحیی علیہ السلام ، قبولیت زکریا علیہ السلام ، زہد عیسی علیہ السلام اور علم خضر علیہم السلام عطا کر دو اور آپ ﷺ کو انبیاء ورسل کے اخلاق میں غوطہ دو ۔ بلا شک و شبہ آپ سید الاولین والآخرین ﷺہیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک بادل کا ٹکڑا میری طرف آیا اور کوئی کہہ رہا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ نےفتح اور بیت اللہ کی کنجیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ میں نے ایک فرشتہ کو آتے دیکھا اور اس نے آپ ﷺ کے کانوں میں گفتگو کی ، پھر آپ ﷺکو بوسہ دیا اور کہا: اے میرے حبیب ﷺ! آپﷺ کو بشارت ہو کہ یقینا آپ ﷺتمام اولاد آدم علیہ السلام کے سردار ہیں۔ آپ پر ہی اللہ تعالی نے رسولوں کو ختم کر دیا۔ اولین و آخرین کا تمام علم صرف آپ کو ہی دیا گیا۔ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے کسی کو کہتے ہوئے سنا کہ اے آمنہ !کسی کیلئے تین دن تک دروازہ مت کھولو، یہاں تک کہ ساتوں آسمانوں کے فرشتے آپ ﷺ کی زیارت سے فارغ ہو جائیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کیلئے گھر کو سجایا اور دروازے کو بند کر لیا اور میں دیکھ رہی تھی کہ آپ ﷺ پر فرشتے فوج در فوج نازل ہو رہے ہیں ۔
شان ولادت
ترجمہ: “صاحب شرف ربیع الاول میں پیدا ہوئے تو کائنات رقصاں اور ستارے منور ہیں۔ آپ ﷺ کے جمال کی دلہن شاہی لباس میں آئی۔ اس لباس میں کوئی بھی اس سے پہلے ظاہر نہیں ہوا تھا۔ سیدہ آمنہ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے جمال کو دیکھا جو ماہ کامل کی طرح ظاہر و منور ہے۔ اور میں نے آسمان کے فرشتوں کو آراستہ و پیراستہ دیکھا اور کائنات و برکت میرے گھر میں رقص کر رہی ہے۔ میں نے پوچھا: یہ سب کیا ہے تو بلندی سے جواب دیا گیا کہ یہ سوال مت پوچھو اور ان کے فضل کے متعلق سوال نہ کرو۔ آپ ﷺ کو آسمانی فرشتوں کی نظروں سے مت چھپاؤ۔ ان کی زندگی کی قسم ! ایسا مت کرو۔ یہ شرافت و فضل کا مجسمہ وہی ہے جو تمام مخلوق سے فائق اور قدر عالی کا مالک ہے۔ اے اونٹنیو! اگر تم وادی عقیق کے خیموں میں شام کے وقت پہنچی ہو تو میں تمہیں نصیحت کرتی ہوں کہ یہیں ٹھہر جاؤ تمہیں بشارت ہو کہ یقینا اس جائے پناہ میں ایک چاند ہے جو تمام چاندوں سے فائق اور زیادہ روشن ہے۔ میرے رب کریم نے آپ پر اتنی دفعہ دائمی رحمت نازل فرمائی جتنی دفعہ پرندے بلند آواز سے چہچہائے۔
شب ولادت معجزات کا ظہور
سیدہ آمنہ فرماتی ہیں کہ اس رات فارس کی آگ بجھا دی گئی جو کہ اس سے ہزار سال قبل نہیں بھجی تھی ۔ کسری کا محل شق ہو گیا ، اس کے کنگرے بکھر گئے اور چودہ کنگرے گر گئے ۔ ساوہ طبریہ کے سمندر کا پانی نیچے اتر گیا۔ سحر و کہانت باطل ہو گئے ، آسمان کی نگہبانی کی گئی، شیاطین کو چوری چھپے سننے سے روک دیا گیا۔ وَأَصْبَحَتْ أَصْنَامُ الدُّنْيَا كُلُّهَا مَنْكُوسَةً، وَأَصْبَحَ عَرْشُ إِبْلِيسَ عَدُوَّ اللَّهِ مَنْكُوسًا إِكْرَامًا لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ترجمہ : ” دنیا کے تمام بت اوندھے ہو گئے اور اللہ کے دشمن ابلیس کا تخت محمد مصطفی ﷺکی تعظیم کی خاطر اوندھا ہو گیا ۔” جب آپ ﷺ پیدا ہوئے تو اپنی والدہ سے گھٹنوں کے بل دوزانو حالت میں جدا ہوئے اور آپ ﷺ کی نگاہ آسمان کی طرف تھی جس سے دائیوں نے حیرانگی کا اظہار کیا اور انہوں نے آپ ﷺ کے دادا جان کو اس کے متعلق آگاہ کرنے کیلئے پیغام ارسال کیا۔
فَكَشَفَ عَنْهُ الْغِطَاءَ فَإِذَا هُوَ يَمْصُ أَصَابِعَهُ فَتَشْخَبُ لِينًا
ترجمہ : ” آپ ﷺ سے پردہ کو ہٹایا تو آپ ﷺ اپنی انگلیاں چوس رہے تھے جن سے دودھ جاری ہے۔”
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا اور رضاعت
عربوں کی یہ عادت ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو اس کیلئے دودھ پلانے والی عورتوں کو تلاش کرتے اور اس بچے کی والدہ اس کو دودھ نہ پلاتی تھی جب آپ ﷺ پیدا ہوئے تو تمام دودھ پلانے والی عورتوں سے دریافت کیا گیا تو ہر ایک نے کہا: میں اسے دودھ پلاؤں گی لیکن حکمت الہیہ سبقت لے گئی کہ اس کریم النفس در یتیم کو حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی دودھ نہ پلائے ۔ سیده حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس سال رسول اللہ ﷺ پیدا ہوئے ، اس سال لوگ سخت تنگی کا شکار تھے کیونکہ وہ قحط کا سال تھا اور ہم لوگوں کی بہ نسبت زیادہ فقر و تنگدستی میں تھے۔ میں بنو سعد کی عورتوں کے ساتھ جو کہ شیر خوار بچوں کی تلاش میں تھیں، اپنی کمزور سواری پر سوار ہو کر روانہ ہوئی جو ایک قطرہ دودھ نہ دیتی تھی اور ہم اپنے بھوکے بچوں کی آہ وزاری کے باعث تمام رات نہ سوئے اور اپنے سینوں میں کچھ دودھ نہ پاتی جو کہ میرے بچے کو سیر کرے، جب ہم مکہ میں داخل ہوئے جس کو اللہ تعالی نے مشرف فرمایا ہے، تو تمام دودھ پلانے والی عورتیں شیر خوار بچوں کی تلاش میں چلی گئیں لیکن میں اور سات دوسری دودھ پلانے والی عورتیں باقی رہ گئیں تو ہم سے حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ ملے اور کہا: میرے پاس ایک بچہ ہے، آؤ تا کہ تم اسے دیکھو، کون اس بچے کے حصے میں ہے اور وہ اسے حاصل کر لے ۔ سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم سب حضرت عبدالمطلب کے ساتھ گئیں اور جب ہم نے آپ ﷺ کو دیکھا تو ہر ایک نے کہنا شروع کر دیا کہ میں اسے دودھ پلاؤں گی اور وہ آپ ﷺ کی طرف آگے بڑ ھیں تو آپ ﷺ نے ان سب عورتوں سے منہ پھیر لیا۔ میں آپ ﷺ کی طرف آگے بڑھی تو جس وقت آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو تبسم فرمایا اور میری طرف آئے ۔ میں نے آپ ﷺ کو اپنی گود میں رکھا اور میں نے اپنی دائیں جانب سے دودھ آپ ﷺ کو دیا تو آپ ﷺ نے اس سے دودھ پیا لیکن جب میں نے بائیں جانب سے دیا تو یہ جانتے ہوئے آپ ﷺ نے منہ پھیر لیا کہ آپ ﷺ کے ساتھ کوئی اور بھی حصہ دار ہے۔ آپ ﷺ کے ساتھ میری محبت و رغبت زیادہ ہوگئی ، جب میں نے آپ ﷺ کو لے کر جانے کا ارادہ کیا توحضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ یتیم ہے اور والد انتقال کر چکے ہیں تو میں نے عرض کی: ذرا مہلت دیجئے تا کہ میں اپنے خاوند حارث سے اس بارے میں مشورہ کرلوں۔ میں اپنے خاوند کے پاس گئی اور سارا قصہ ان کو بیان کیا تو انہوں نے مجھے کہا: لے آؤ ۔ اللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ اس بچے کے باعث ہمارے لیے برکت عطا فرمائے گا۔ میں آپ ﷺ کی طرف واپس گئی اور لے کر اپنی گود میں رکھا تو آپ ﷺمیرے سینے کے ساتھ لگ گے۔ جب صبح ہوئی تو میرے خاوند نے میرے لیے میری سواری کو آگے کیا جبکہ ستر دودھ پلانے والی عورتوں کی گدھیوں میں سے سب سے زیادہ کمزور میری سواری تھی ، جو نہی میں اس پر سوار ہوئی اور آپ ﷺ کو اپنے سامنے رکھا تو سواری چاق و چوبند ہوگئی اور تمام گدھیوں سے سبقت لینے لگی۔ اس سے لوگوں نے تعجب کیا اور میں نے محمد مصطفی ﷺ کے باعث خوشی محسوس کی ۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت
ترجمہ: اے حلیمہ ! بلند درجات کے ساتھ خوش ہو جاؤ کہ تم عمومی الطاف (عام مہربانیوں ) کی وجہ سے کامیاب ہو گئیں ۔ تمہارے تمام معاملات درست (سنور ) ہو گئے اور کتنی ہی احسن بات ہے کہ آپ ﷺ کی خلقت عظیم ہے۔
اے حلیمہ ! خوش ہو جاؤ کیونکہ تمہارے لیے ہی بشارت ہے ۔
تمہیں مسرتوں اور سرور کے ساتھ نوازا گیا اور تو نے آپ کی وجہ سے تمام آرزوؤں کو بھی بچا لیا ۔ ایسے نبی ( محترم ) ﷺجن میں تمام صفات حمیدہ جمع ہوئیں اور آپ ﷺ کے حسین چہرہ کے باعث تم کامیابی سے ہم کنار ہوئیں۔
اے حلیمہ ! خوش ہو جاؤ کیونکہ تمھارے لیے ہی بشارت ہے ۔ کامیابی تمہارے لیے ہی ہے کیونکہ تم نے خیر الخلائق ﷺ کو دودھ پلانے کا فریضہ اور شفاعت مصطفیٰ ﷺ کو حاصل کیا۔ آپ ﷺ کے اوصاف میں سے حسن قناعت ہے اور آسودہ حالی سے خوش ہو جاؤ کیونکہ تم ایک ہی جگہ رہائش پذیر ہو۔
اے حلیمہ خوش ہو جاؤ کیونکہ تمہارے لیے ہی بشارت ہے ۔
تم نے اس مصطفیٰ و ہادی ﷺ کی کفالت کی جن پر جان قربان کی جاتی ہے اور آپ ﷺایسے نبی ہیں جنہوں نے مکارم اخلاق کی چادر اوڑھی ہوئی ہے۔ جب چاند نظر آتا ہے تو آپ ﷺ سے غیرت کھاتا ہے کیونکہ آپ ﷺ کے چہرہ میں اوصاف کر یمہ جمع ہیں۔
“اے حلیمہ خوش ہو جاؤ کیونکہ تمہارے لیے ہی بشارت ہے ۔
کائنات میں آپ ﷺ کے جمال کی دلہن کی حفاظت کی جاتی ہے اور اس کے متعلق افعال کریمانہ والی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے۔ آپ ﷺ ایک صاحب استقلال حبیب ﷺہیں جن سے دیر تک فائدہ اٹھایا گیا اور آپ ﷺ کے عظیم افعال حمیدہ ظاہر ہوئے۔
اے حلیمہ ! خوش ہو جاؤ کیونکہ تمہارے لیے ہی بشارت ہے ۔
ایسے نبی ہیں جن کا نور حسن میں ظاہر ہے اور ایسے حبیب ہیں جن کی خوشبو کائنات میں پھوٹ رہی ہے۔ آپ ﷺ کے اوصاف کی تعریفیں کی جاتی ہیں اور آپ ﷺکی برکات کے باعث ہی تم مقیم ہوگئی ہو۔
اے حلیمہ ! خوش ہو جاؤ کیونکہ تمہارے لیے ہی بشارت ہے۔
دار الخلد میں کس نے آپ ﷺ پر رحمت نازل فرمائی اور آثار رضا آپ ﷺ پر ظاہر ہوئے ۔ بہت ہی زیادہ خوشحالی آپ ﷺ کی طرف دوڑ کر آتی ہے اور جنت میں حوریں آپ ﷺ کی خدمت کیلئے حاضر ہیں ۔
اے حلیمہ ! خوش ہو جاؤ کیونکہ تمہارے لیے ہی بشارت ہے۔
حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں جس گھر، درخت اور ڈھیلے کے پاس سے گزرتی تو وہ کہتا: اے حلیمہ تجھے بشارت ہو، جو کچھ میں نے دیکھا اس کے باعث میں متعجب ہوگئی ۔ خوشی نے مجھے گھیر لیا اور سید الا نام ﷺ کے نور نے مجھ سے ظلمت کی شدت کو دور کر دیا تو میں حضور نبی کریم ﷺ کے انوار کی روشنی میں چلتی رہی یہاں تک کہ میں اپنے گھر پہنچ گئی اور جو کچھ میرے ارد گرد تھا وہ روشن ہو گیا جب بنو سعد نے ان انوار کو دیکھا تو انہوں نے کہا: اے حلیمہ! یہ چمکنے والا نور کیا ہے؟
جب حلیمہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کے چمکنے والے انوار کی تصدیق کر لی تو خوش ہوئی اور اٹھ کر ہمارے نبی خیر الانام ﷺ کے ساتھ بغل گیر ہوگئی۔
حلیمہ کہتی ہیں کہ ہم سے مشقت دور ہوگئی اور خوشی آگئی۔ اے ہماری کامرانی و سعادت مندی ! ہم نے محمدمصطفی ﷺ کی آمد کی وجہ سے آرزو کو پالیا۔
نور مصطفی ﷺ کا پایا جانا سورج کیلئے عقل اور صفا کا مقصود ہے۔ عطاء کا خزینہ اور وفا کا راز ہمارے پاس شیر خوار بچہ ہو گیا۔
اس کیلئے بشارت ہو جو سعادتمند بنادی گئی اور خوفناک اشیاء سے دور کر دے گئی ۔
رب کریم کی طرف سے رضاعت احمد ﷺ کا وعدہ دی گئی جو کہ ہم سب سے افضل ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے مرتبہ کو ہمارے اندر بلند فرمایا اور آپ ﷺ کے عمدہ کام کا اعلان فرمایا۔
اے پکارنے والے! آپ ﷺ کے ذکر کو بار بار دہراؤ کیونکہ آپ ﷺ کی محبتوں اور چاہتوں کو یہاں جمع کرتا ہوں۔
اگر تو نے سعادت کا قصد کیا ہے تو آپ ان کی پناہ میں آ جاؤ کیونکہ سعادت آپ ﷺ کی محبت ہے۔
یا رب !ہم تمام کو حساب والے دن حضور نبی کریم ﷺ کے طفیل سعادت مند بنا ۔ آمین
حلیمہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ اس طرح پروان چڑھے کہ بچوں میں سے کوئی ایک بھی آپ ﷺ کی طرح نہیں پھلا پھولا۔
حضور نبی کریم ﷺ کی پہلی گفتگو
جب آپ ﷺ دو سال کی عمر کے ہوئے تو میں نے پہلی بات آپ ﷺ سے سنی کہ وہ ارشاد فرماتے ہیں:
اَللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
ترجمہ :” اللہ بہت بڑا ہے، اللہ کیلئے بہت ہی تعریفیں اور وہ صبح و شام سبحان ہے۔”
چار سال کی عمر میں والدہ کے پاس
جب آپ ﷺ چار سال کے ہوئے تو ہم آپ ﷺ کی والدہ محترمہ کے پاس حاضر ہوئے حالانکہ ہم آپ کیلئے بہت حریص تھے، ہم نے عرض کیا کہ آپ انہیں ہمارے پاس چھوڑ دیں تو ہم ان کی حفاظت بھی کریں گے اور امکانی حد تک ( وسعت کے مطابق) خیال کریں گے اور اس طرح کرنے سے ہم صرف رسول اللہ ﷺ کی برکت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو ہمارے ساتھ واپس لوٹا دیا۔ ایک دن آپ ﷺ نے مجھے کہا: اے والدہ! میں دن کے وقت اپنے بھائیوں کو نہیں دیکھتا۔ میں نے آپ ﷺ کو بتایا کہ وہ اپنے گھروں کے ارد گرد بکریاں چراتے ہیں تو آپ ﷺ فرمانے لگے کہ مجھے بھی ان کے ساتھ بھیجو میں نے آپ ﷺ کو جانے کی اجازت دے دی ۔آپ ﷺ نے لاٹھی لی اور اس طرح نکلے جیسے چرواہے نکلتے ہیں جب آپ ﷺ ہر شام لوٹتے تو میں آپ ﷺ کے حال کے متعلق دریافت کرتی تھی تو میرے بچے بتاتے کہ ان کی وجہ سے ہم عجیب و غریب حالات مشاہدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ خشک جگہ پر چلے تو وہ فورا سرسبز ہو جاتی ہے اور جس درخت اور پتھر کے قریب سے گزرے تو اس نے آپﷺ پر سلام بھیجا۔
شق صدر
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن بکریاں چرا رہے تھے کہ میں دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ کا بھائی از حد پریشان ہے اور اے امی ! اور اے ابو! کہہ کر پکارنے لگا کہ تم دونوں ہمارے قریشی بھائی کی مدد کو پہنچو کیونکہ دو آدمیوں نے پکڑ کر آپ ﷺ کے پیٹ کو چاک کر دیا ہے۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نکلے تو آپ ﷺ کے رنگ کو بدلا ہوا پایا تو میں نے آپ ﷺ کو کہا کہ اے لخت جگر! آپ ﷺ کے ساتھ کیا ہوا تو آپ والے فرمانے لگے اے والدہ! میرے پاس دو آدمی سفید لباس میں ملبوس ، برف سے بھرا ہوا سونے کا طشت اٹھائے ہوئے آئے ۔ انہوں نے میرے پیٹ کو چاک کیا اور اس سے سیاہ رنگ کا منجمد خون نکالا اور پھینک کر کہا : یا حبیب اللہ ! یہ آپ ﷺ میں شیطان کا حصہ ہے پھر انہوں نے میرے دل کو برف سے دھویا اور میں نے کسی قسم کا درد محسوس نہیں کیا۔ پھر انہوں نے دل پر نور کی مہر لگائی تو میں نے مہر کی ٹھنڈک کو اپنی پسلیوں کے درمیان محسوس کیا ، اتنی دیر میں بنو سعد کے لوگ آئے اور بوسہ دے کر آپ کا حال دریافت کرنے لگے تو آپ ﷺ نے ان کو بتانا شروع کر دیا جس سے لوگوں نے حیرانگی کا اظہار کیا اور مجھے کہا گیا کہ اے حلیمہ ! آپ ﷺ کو ان کے دادا جان اور والدہ محترمہ کے پاس واپس کر دو کیونکہ ہم آپ کے متعلق خوفزدہ ہیں۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کی والدہ محترمہ کے پاس آئے تو سیدہ آمنہ نے دونوں کو کہا کہ کس وجہ سے تم دونوں آپ ﷺ کو لوٹانے آئے ہو حالانکہ تم دونوں آپ کے متعلق حریص تھے ، ان دونوں نے جو کچھ واقع ہوا سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کو بتایا سیدہ آمنہ نے ارشاد فرمایا تم آپ ﷺ کے متعلق شیطان کی وجہ سے خوف کھاتے ہو۔ واللہ! آپ ﷺ پر شیطان کی ہرگز رسائی نہیں ہے اور میرے اس لخت جگر کیلئے ایک عظیم شان ہے۔ اچھا اسے چھوڑ جاؤ اور لوٹ جاؤ۔
حضور نبی کریم ﷺ کی پہلی گفتگو
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ ﷺ چھ سال کے ہوئے تو مکہ المکر مہ ومدینہ منورہ کے درمیان ابواء نامی گاؤں میں آپ ﷺ کی والدہ انتقال فرما گئیں اور آپ ﷺ کی پرورش حضرت عبدالمطلب نے کی، جب آپ ﷺ کی عمر آٹھ سال کی ہوئی تو آپ ﷺ کے دادا جان حضرت عبد المطلب انتقال فرما گئے اور آپ ﷺ کے چچا حضرت ابو طالب نے آپ ﷺ کی کفالت کی۔ جب آپ دس سال کی عمر کے ہوئے تو اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو فخر و وقار عطا فرمایا، جب آپ چلتے تھے تو سفید بادل کا ٹکڑا، آپ ﷺ پر سایہ کرتا تھا، جب آپ ﷺ ٹھہرتے تو وہ بھی آپ ﷺ کے ساتھ ٹھہر جاتا۔ جب آپ چلتے تو وہ بھی آپ ﷺ کے ساتھ چلتا اور جب عمر کے چالیس سال مکمل ہوئے تو اللہ تعالی کی طرف سے آپ ﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا۔ اے اللہ! آپ ﷺ پر اور آپ ﷺکی آل اور ہر پیروکار پر رحمت و سلام نازل فرما۔ آمین۔
حمدِ رب اور صلوۃ و سلام کے اختتامی اشعار
ترجمہ: “مخلوق کا مولا، خالق اور یوم النشو کا مالک ہر لمحہ ہمیں کافی ہے۔ ہمارا رب قیامت کے دن احسان اور عفو و درگزر کرنے والا ہے۔ وہ زندہ و پائندہ علم والا ، یکتا، ہمیشہ باقی رہنے والا غنی، بزرگ و برتر انصاف والا، وحدہ لاشریک اور بندوں کے ساتھ مہربان ورحیم ہے۔ اے وہ ذات! جب اسے پکارا گیا تو اس نے سن لیا، ہمارے لیے اس حجاب کو دور فرما دے۔ حضور نبی کریم ﷺ کے وصل کے ساتھ مشرف فرما اور زیادہ سے زیادہ نیکی عطا فرما۔ تو ازل سے قدیم اور لطیف الذات ہے اور … جو بھاری مصیبت کا بارگراں نازل ہوا ہے ، وہ زائل نہیں ہوا تو اس کو زائل فرما۔ صلوۃ نبی کریم ﷺ کو پہنچا۔ اے بزرگ و برتر خدا! ہم یوم جزاء سے خوفزدہ ہیں اس دن ہمیں سلامتی عنایت فرما۔ صحابہ کرام اور اہل بیت رضوان اللہ تعالی اجمعین کو سلامتی عنایت فرما اور ہر سپید و سیاہ کو جو آپ ﷺ کے ذریعہ سے سردار بن گیا۔ خصوصاً حاسدوں کو مٹانے والے سیف اللہ بن ولید رضی اللہ عنہ کو سلامتی عنایت فرما ۔”