دعا کی قبولیت کے اوقات
جن اوقات میں دعا قبول ہوتی ہے وہ یہ ہیں:
۱) شبِ قدر: زیادہ تر امید یہ ہے کہ شب قدر ماہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں یعنی اکیسویں تیئیسویں، پچیسویں ستائیسویں، یا انتیسویں شب میں آتی ہے ۔( اکیسویں اور ستائیسویں شب کے متعلق سب سے زیادہ گمان ہوتا ہے)۔(حاکم عن سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا)
عرفہ کا پورا دن (ذی الحجہ کی نویں تاریخ)۔ (ترمذی حدیث نمبر ۳۵۸۵)
۲) رمضان المبارک کا پورا مہینہ ۔(بزار عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ)
۳) جمعہ کی رات (یعنی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات ) ۔( نزل الابرار )
۴) جمعہ کا (پورا) دن۔ (بخاری ج ۲ص ۹۴۷،مسلم ج ۲۸۱)
۵) (روزانه) رات کا دوسرا آدھا حصہ (مجمع الزوائد ج ۱۹۴)
۶) (روزانہ) رات کا پہلا تہائی حصہ – (مجمع الزوائد ج ۱۹۴)
۷) (روزانه) رات کا آخری تہائی حصہ۔ (مسلم ج ۱ ص ۲۸۱، بخاری ج ۲ ص ۹۳۶)
۸) (روزانہ) رات کے آخری تہائی حصہ کا درمیان ۔ ( مسلم ج ۲ ، ص ۹۳۶)
۹) (روزانہ) سحر کے وقت ۔ (بخاری ج ۲، ص ۹۳۶)
سب سے زیادہ دُعا کے قبول ہونے کی امید جمعہ کی (دعا قبول ہونے کی )ساعت اجابت میں ہے۔ اس ساعت کے وقت کے متعلق مختلف احادیث کے تحت حسب ذیل اقوال ہیں ۔
۱) یہ ساعت امام کے خطبہ کے لیے (منبر پر) بیٹھنے سے لے کر نماز جمعہ ختم ہونے تک ہے۔ (مسلم ، ابو داؤد عن ابی موسیٰ العشری)۔
۲) جماعت کھڑی ہونے کے وقت سے لے کر سلام پھیرنے تک ہے۔(ترمذی ،ابن ماجہ عن عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ) ۔
۳) دعا کرنے والا جب کھڑا ہوا جمعہ کی نماز پڑھ رہا ہو وہ وقت ہے۔(ابن ماجہ عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
۴) بعض علماء کہتے ہیں جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد سے سورج غروب ہونے تک ہے۔) ترمذی)
۵) بعض علماء کہتے ہیں جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہے ۔( ابو داؤد، نسائی عن جابر)
۶) بعض علماء کہتے ہیں( جمعہ کے دن) صبح صادق نکلنے سے سورج طلوع ہونے تک ہے۔
۷) بعض علماء کہتے ہیں (جمعہ کے دن( سورج طلوع ہونے کے بعد ہے۔ مشہور صحابی ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کا مذہب یہ ہے کہ ساعتِ اجابت (جمعہ کے دن دوپہر کو )سورج ڈھلنے کے ذرا دیر بعد سے ایک ہاتھ کے بقدر سورج ڈھلنے تک ہے۔
۸) حسن حصین کے مصنف امام جزری رحمتہ اللہ فرماتے ہیں: میرا تو عقیدہ یہ ہے کہ( اساعت اجابت) امام کے جمعہ کی نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے سے لیکر آمین کہنے تک کے درمیان ہے تاکہ جو حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ وارد ہوئی ہیں وہ سب اس مذکورہ بالا صورت میں جمع ہو جائیں جیسا کہ میں نے ایک دوسرے مقام پر اس کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔
۹) امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ: (اس ساعت کا( صحیح بلکہ ایسا درست ترین (وقت) کہ اس کے علاوہ کسی قول کو اختیار کرنا ہی جائز نہیں، وہ ہے جو صحیح مسلم میں حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ ساعتِ اجابت کا وقت امام خطبہ کے لیے منبر پر بیٹھنے سے لے کر نماز ختم ہونے تک ہے۔ یہی سب سے پہلا قول ہے ۔