Muhammadi Rohani Qafila

نور مصطفی

نورِ مصطفی ﷺ

حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس زندگی کے احوال مبارکہ پر لکھی گئی خوبصورت تحریر

نورِ محمدی ﷺ

یہ ایک دائمی اور ابدی حقیقت ہے کہ نورِ محمدی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اول مخلوقات اور ساری کائنات کا ذریعہ اورتخلیقِ عالم و آدم علیہ السلام کا واسطہ ہے۔جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق سے پہلے میرے نورکو پیدا فرمایا اور تمام مکونات علوی وسفلی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کے نور سے ہیں۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ہی جوہر پاک سے ارواح ، شبیہات، عرش،کرسی، لوح ،قلم ،جنت و دوزخ ،ملک و فلک،جن وانس، زمین وآسمان ، بحار(سمندر کی جمع)، جبال(پہاڑ کی جمع) اور تمام مخلوقات ،عالم ظہور میں آئیں اور بااعتبار کیفیت، تمام کثرتوں کا صدور اسی حدیث سے ہے اور اسی جوہرپاک سے ساری مخلوقات کا ظہور رو بروز ہے۔اس حقیقت کے اظہار و بیان میں اہل علم حضرات عجیب و غریب عبارات اور مضامین کاذکر فرماتے ہیں۔

مخلوقِ اوّل

حدیث پاک میں ہے کہ جب قلم کو پیدا کیا گیا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے فرمایا ’’لکھ !‘‘قلم نے عرض کیا ’’ کیا لکھوں؟‘‘ فرمایا ’’لکھ!‘‘ ’’مَا کَانَ وَ مَایَکُوْنُ اِلَی الْاَبَدِ‘‘ یعنی جو کچھ ہو گیا اور جو کچھ آئندہ ابد تک ہو گا سب لکھ ۔ لہذا پتہ چلا کہ قلم کی پیدائش سے پہلے کچھ کائنات علم و وجود میں تھی۔

یاد رکھیے! کہ عرش،کرسی اور ارواح کی تخلیق سے پہلے ، حضورنبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نورِ مبارک عالم ظہور میں آیا ہے۔اس تقدیر پر ہو سکتا ہے کہ ’’مَا کَانَ‘‘ سے مراد نور مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے احوال وصفات ہوں ۔کیونکہ سارے جہاں سے نور مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اولیت ثابت ہے اور’’مَا یَکُوْنُ‘‘سے مراد وہ کائنات ہیں جو دنیا میں بعد میں ظاہر ہوئیں ، اور اس عالم ظہور میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ثابت ہے جیسا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’کُنْتُ نَبِیًّا وَاٰدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ‘‘ میں اس وقت بھی نبی تھا جب کہ آدم روح و جسم کے درمیان تھے۔(الخصائص الکبریٰ ،ص۳۲)

 ایک اور حدیث پاک میں آتا ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ’’اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ وَ خَاتَمُ النَّبِّیْنَ وَاٰدَمُ لَمُنْجَدِلُٗ فِیْ طِیْنِہٖ‘‘ بے شک میں عبد اللہ اور آخری نبی اس وقت تھا جب کہ آدم اپنے خمیر میں تھے ۔اور لوگوں کی زبان پر یہ مشہور ہے کہ ’’وَاٰدَمُ بَیْنَ الْمَآءِ وَالطَّیْنِ‘‘ یعنی آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے۔

نورِ محمدی ﷺ اور حجابات کی سیر

نور مقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو مختلف حجابات کی سیر کرائی گئی۔

 اللہ تعالیٰ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نور آسمانوں اور زمین ،عرش وکرسی ، لوح و قلم اور بہشت و دوزخ کی خلقت اور تمام پیغمبروں کی پیدائش سے چار لاکھ چوبیس ہزار سال پہلے پیدا کیا۔پھر اسی نور سے بارہ حجابات یعنی اول حجاب قدرت ،دوئم حجاب عظمت،سوئم حجاب منت ، چہارم حجاب رحمت ،پنجم حجاب سعادت ، ششم حجاب کرامت،ہفتم حجاب منزلت،ہشتم حجاب ہدایت ،نہم حجاب نبوت،دہم حجاب رفعت،یازدہم حجاب ہیبت اور دواز دہم حجاب شفاعت خلق فرمائے۔

حجاب قدرت میں بارہ ہزار سال رکھا۔وہ اس میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی (پاک ہے میرا پروردگار (اللہ تعالیٰ ) بہت بلند) کہتا رہا۔

اول حجاب قدرت

حجاب عظمت میں گیارہ ہزارسال اس نور مبارک کو رکھا۔وہ اس میں سُبْحَانَ عَالِمِ السِّرِّ (پاکی ہے رازوں کو جاننے والے (اللہ تعالیٰ ) کے لیے )کہتا رہا۔

دوئم حجاب عظمت

حجاب منت میں دس ہزار سال نور مقدس کو رکھا۔جس میں وہ سُبْحَانَ مَنْ ھُوَ قَائِمُٗ لَا یَلْھُوْ (پاکی ہے اس (اللہ تعالیٰ ) کے لیے جو قائم ہیں،غافل نہیں ہوتا) کہتا رہا۔

سوئم حجاب منت

نو ہزار سال حجاب رحمت میں جگہ دی وہ اس میں سُبْحَانَ رَفِیْعِ الْاَعْلٰی (پاکی ہے بلند و بالا(اللہ تعالیٰ ) کے لیے )کہتا رہا ۔

چہارم حجاب رحمت

آٹھ ہزار سال حجاب سعادت میں رکھا جہاں وہ سُبْحَانَ مَنْ ھُوَ دَائِمُٗ لَا یَسْحُوْ (پاکی ہے اس (اللہ تعالیٰ ) کے لیے جو ہمیشہ سے ہے کبھی ختم نہیں ہو گاکہتا رہا ۔

پنجم حجاب سعادت

پھر حجاب کرامت میں سات ہزار سال رکھا وہاں وہ سُبْحَانَ مَنْ ھُوَ غَنِیُّٗ لَا یَفْتَقِرُ (پاک ہے وہ ذات (اللہ تعالیٰ ) جو نے نیاز ہے کسی کا محتاج نہیں)کہتا رہا۔

ششم حجاب کرامت

حجاب منزلت میں چھ ہزار سال رکھا جس میں وہ سُبْحَانَ الْعَلِیْمِ الْکَبِیْرِ (پاک ہے (اللہ تعالیٰ ) بہت بڑا جاننے والا)کہتا رہا۔

ہفتم حجاب منزلت

پھرنور مبارک کو حجاب ہدایت میں پانچ ہزار سال رکھاگیاجہاں وہ سُبْحَانَ ذِیْ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ (پاک ہے عظیم عرش والا (اللہ تعالیٰ ) کا وظیفہ پڑھتا رہا ۔

ہشتم حجاب ہدایت

چار ہزار سال حجاب نبوت میں رکھا اس میں وہ سُبْحَانَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ (پاک ہے عزت والا پروردگار (اللہ تعالیٰ ) اس سے جس سے اسے برائی میں متصف کیا جاتا ہے)پڑھتا رہا ۔

نہم حجاب نبوت

نور مقدس تین ہزار سال حجاب رفعت میں مقیم کیا وہ اس میں سُبْحَانَ ذِیْ الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوْتِ (پاکی ہے بادشاہی اور مملکت والے (اللہ تعالیٰ ) کے لیے)پڑھتا رہا ۔

دہم حجاب رفعت

دو ہزار سال حجاب ہیبت میں رکھا گیاجس میں وہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ (اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی ہے)کہتا رہا ۔

یازدہم حجاب ہیبت

سال حجاب شفاعت میں رکھا جس میں وہ سُبْحَانَ الْعَظِیْمِ وَ بِحَمْدِہٖ (پاکی ہے عظیم رب کی اس کی حمد کے ساتھ)پڑھتا رہا۔(واللہ تعالیٰ اعلم)۔

دوازدہم حجاب شفاعت

اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک لوح پر ثبت فرمایا ۔ وہاں وہ سات ہزار سال تک نور افشانی کرتا رہا۔واحدنیت کے بیس دریاؤں میں نور مصطفی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم غوطہ زن رہا۔

نور کے دریا

پھر اللہ تعالیٰ نے نورکے بیس دریا خلق فرمائے ۔ہر دریا میں چند علوم تھے جن کا علم اللہ رب العالمین کے سوا کسی کونہیں ۔پھر اللہ تعالیٰ نے نور ِمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اُن دریاؤں میں یعنی

(۵)دریائے رضا

(۴)دریائے تواضع

(۳)دریائے خشوع

(۲)دریائے صبر

(۱)دریائے عزت

(۱۰)دریائے انابت

(۹)دریائے خشیت

(۸)دریائے پرہیز گاری

(۷)دریائے حلم

(۶)دریائے وفا

(۱۵)دریائے حیاء

(۱۴)دریائے صیانت

(۱۳)دریائے ہدایت

(۱۲)دریائے مزید

(۱۱)دریائے عمل

(۱)دریائے عزت

(۲)دریائے صبر

(۳)دریائے خشوع

(۴)دریائے تواضع

(۵)دریائے رضا

(۱)دریائے عزت

(۲)دریائے صبر

(۳)دریائے خشوع

(۴)دریائے تواضع

(۵)دریائے رضا

(۶)دریائے وفا

(۷)دریائے حلم

(۸)دریائے پرہیز گاری

(۹)دریائے خشیت

(۱۰)دریائے انابت

(۱۱)دریائے عمل

(۱۲)دریائے مزید

(۱۳)دریائے ہدایت

(۱۴)دریائے صیانت

(۱۵)دریائے حیاء


سُبْحَانَ مَنْ ھُوَ عَالِمُٗ لَا یَجْھَلَ سُبْحٰنَ مَنْ ھُوَ حَلِیْمُٗ لَا یُعَجِّلُ سُبْحٰنَ مَنْ ھُوَ غَنِیُّٗ لاَ یَفْتَقِرُ
(پاک ہے وہ رب جو جاننے والا ہے غافل نہیں ہوتا ،پاک ہے وہ رب جو حلم(صبر)والا ہے جلد باز نہیں ہے، پاک ہے وہ رب جو بے نیاز ہے محتاج نہیں ہے)پھر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ندا دی کہ آیا مجھے پہنچانتے ہو۔؟یہ سن کر نو رمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے کہا: اَنْتَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّااَنْتَ وَحْدَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ رَبُّ الْاَرْبَابِ وَ مَلِکُ الْمَلُوْکِ (تو اللہ ہے وہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو واحد ہے تیرا کوئی شریک نہیں تو،تمام مخلوقات کا پروردگار ہے اورتمام بادشاہوں کابادشاہ ہے) اور اس کے بعدتمام نبیوں کے نور نے بھی یہی کلمات پڑھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے فرمایا کہ تو میرا برگزیدہ ، میرا حبیب اور میری مخلوق میں سب سے افضل ہے اور تیری امت تمام امتوں سے افضل ہے۔

رسول اکرم ﷺ کے نور سے جوہر کی تخلیق

 پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے اللہ تعالیٰ نے ایک جوہر پیدا کیا اور اس کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ۔ایک حصہ پر نگاہ ڈالی تو وہ آب شریں ہو گیا پھردوسرے حصے کو نگاہِ شفقت سے دیکھا اور اس سے عرش کو خلق فرمایا اور پانی پر رکھا۔ پھر نورِ عرش کی کرسی کو اور نورِ کرسی سے لوح کو اور نورِ لوح سے قلم کو پیدا کیا۔اور قلم کو وحی فرمائی کہ میری توحید لکھ تو وہ کلام الہی سن کر ہزار سال تک مدہوش رہا ۔جب ہوش میں آیا تو عرض کی پالنے والے کیا لکھوں ۔فرمایا لکھ۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔جب قلم نے یہ کلمہ سنا تو سجدہ میں گر پڑا اور کہا سُبْحَانَ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ سُبْحَانَ الْعَظِیْمِ الْاَعْظَمِ (پاکی ہے اس کے لیے جو اکیلا ہے ،زبردست حساب لینے والا ہے،پاکی ہے اس (اللہ تعالیٰ ) کے لیے جو سب سے عظیم ہے) ۔اور عرض کی اے پروردگار محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کون ہیں جن کے نام کو اپنے نام سے اور جن کی یاد کو اپنی یاد سے متصل فرمایا ہے۔؟ اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی اے قلم! اگر وہ نہ ہوتا تو نہ تجھ کو خلق کرتا نہ دنیا پیدا کرتا ۔وہی ہے(نجات کی)خوشخبری دینے والا اور (عذاب سے)ڈرانے والا ۔وہی نور بخشنے والا چراغ، وہی شفاعت کرنے والا اور وہی میرا حبیب ہے۔یہ سن کر قلم حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نام کی حلاوت سے(وجد میں آکر)بولا :

السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ

السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ

نور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا وَ عَلَیْکَ السَّلَامُ مِنِّیْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ اسی روز سے سلام کرنا سنت اور جواب ِ سلام دینا واجب قرار پایا ۔پھر اللہ تعالیٰ نے قلم کو حکم دیا کہ لکھ میری قضا و قدر کو جن کو قیامت تک پید اکرتا رہوں گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کچھ فرشتوں کو پیدا کیا تا کہ وہ روزِ قیامت تک محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجیں اور عاشقان ِمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لیے استغفار کیا کریں۔پھراللہ تعالیٰ نے نور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بہشت کو پیدا کیا اور اس کو چار صفتوں تعظیم، جلالت، سخاوت اور امانت سے زینت دی اور بہشت کو اپنے دوستوں اور اطاعت گزاروں کے لیے مقرر فرمایا ۔پھر آسمانوں کو اس دھوئیں سے جو پانی سے اٹھا تھا پیدا کیا اور اس کے کف(جھاگ) سے زمینوں کو خلق فرمایا ۔اس وقت زمینیں متحرک تھیں تو پہاڑوں کو پیدا کیا تاکہ زمینوں کو قرارہو اور ایک فرشتے کو خلق فرمایا جس نے زمین کو اٹھائے رکھا اور زمین نے قرار پکڑا ۔زمین کو پانی پر اور پانی کو ہوا پر اور ہوا کو تاریکی میں رکھا۔اور تاریکی کے نیچے جو کچھ ہے اس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔پھر عرش کو نورِ فضل اور نورِ عدل سے منور فرمایا ۔فضل سے عقل و علم اور حلم و سخاوت کو پید اکیا۔اور عقل سے خوف وبیم ، علم سے رضا و خوشنودی ، حلم سے مودت اور سخاوت سے محبت کو پیدا کیا اور ان تمام صفتوں کو طینتِ نور ِ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں خمیردیا۔پھر حضور پُر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو بہتر ہزار سال تک ساکن رکھا اور نورِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے علی و فاطمہ ، حسن و حسین رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے انوار کو پیدا فرمایا ۔

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجد د دین و ملت الشّاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضور پُر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کی اولاد پاک علیھم الصلوۃ و السلام کے نسب کے متعلق کیا خوب لکھا ہے۔ (حدائق بخشش صفحہ نمبر۱۸۱ )

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

صدقہ  لینے  نور کا آیا ہے تارا نور کا

تیری نسل پاک میں ہےبچہ بچہ نور کا 

تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

پھر آفتاب و ماہتاب ،ستارے ،رات اور دن ،روشنی و تاریکی اور تمام فرشتوں کو نورِ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے پیدا کیا اور اس کے بعد اُمت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی روحوں کو خلق فرمایا۔

نورِ مصطفی ﷺ بہشت اور سدرۃ المنتہیٰ میں

پھر اللہ تعالیٰ نے اس نور کو بہتر ہزار سال تک بہشت میں ساکن کیا اور پھر بہتر ہزار سال سدرۃ المنتہیٰ میں ساکن کیا۔سات آسمان پر نور مصطفی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم چمکتا رہا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نور ِمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ آسمانِ اول پر آیا اور وہ وہاں قائم رکھا جب تک کہ حضرت آدم علیہ السلام کے پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا۔

تخلیقِ حضرت آدم علیہ السلام

پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ زمین پر جا کر ایک مٹھی خاک لائیں جس سے حضرت آدم علیہ السلام کا جسم تیار ہو۔اس وقت ابلیس لعین سبقت کر کے زمین پرپہنچا اور زمین سے بولا کہ خدا چاہتا ہے کہ تیری مٹی سے ایک مخلوق پیدا کرے اور اس کو آگ میں ڈالے۔اگر فرشتے تجھ سے مٹی لینے آئیں تو کہنا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتی ہوں کہ مجھ سے مٹی لے کر جاؤ کیونکہ اس کو آگ میں ڈالا جائے گا ۔غرض حضرت جبرائیل علیہ السلام مٹی لینے کے لیے نازل ہوئے تو زمین نے پناہ مانگی ۔وہ واپس چلے گئے اور عرض کی اے پالنے والے زمین نے تیری پناہ چاہی ۔لہذا میں نے اس پر رحم کیا ۔اسی طرح حضر ت میکائیل وحضرت اسرافیل علیہم السلام آئے اور واپس گئے ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت عزرائیل علیہ السلام کو بھیجا زمین نے ان سے بھی بد ستور پناہ طلب کی ۔حضرت عزرائیل علیہ السلام نے کہا میں بھی اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ اس کا حکم نہ مانوں ۔پھرتمام روئے زمین کے مختلف حصوں سے سفید و سیاہ سرخ اور نرم و سخت مٹی لی ۔اسی سبب سے اولاد آدم علیہ السلام کے اخلاق اور رنگ مختلف ہوئیں ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت عزرائیل علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ تم نے مٹی پر رحم کیوں نہ کیا۔جس طرح اور فرشتوں نے رحم کیا تھا۔؟ حضرت عزرائیل علیہ السلام عرض کی پالنے والے تیری اطاعت اس پر رحم سے بہتر تھی۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! اے عزرائیل علیہ السلام کہ میں چاہتا ہوں کہ اس خاک سے ایک مخلوق پیدا کروں جس میں انبیاء اور نیک بندے اور اشقیاء اور بدکار ہوں گے۔اور تم کو ان تمام کی روحوں کے قبض پر میں نے مقرر کیا ۔پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ طینت سفید و نورانی جو نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہے اور تمام مخلوقات کی اصل ہے،لائیں ۔حضرت جبرائیل علیہ السلام تمام ملائکہ کے ساتھ مقام روضہِ مقدس حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور اس پاک و مقدس خاک کو لیکر اللہ تبارک تعالیٰ کی بارگاہ میں تشریف لے آئے اور حکم ِ خداوندی سے اس پاک و مقدس خاک کو آبِ تسنیم و آب ِ تعظیم و آب ِتکریم و آبِ تکوین و آبِ رحمت و آبِ خوشنودی وآبِ عفو سے خمیر کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک کو شفقت سے، ہاتھوں کو سخاوت سے، دل کو صبر و یقین سے ، شرمگاہ کو عفت سے ،پیروں کو شرف سے اور آپ کے نفسوں کو خوشبو سے پیدا کیا۔ پھر اس طینت کو آدم علیہ السلام کی طینت کے ساتھ مخلوط کیا ۔اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو وحی کی کہ میں مٹی سے ایک بشر پیدا کروں گا۔جب اس میں روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدہ کرنا ۔ اس کے بعد روح ِآدم علیہ السلام کو حکم دیا کہ ان کے بدن میں داخل ہو۔

روح کا جسم سے کراہت کرنا

روح نے جسم کو تنگ دیکھ کر داخل ہونے سے کراہت کی تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاکہ کراہت کے ساتھ داخل ہو اور کراہت کے ساتھ ہی جسم سے نکلنا ۔غرض روح دائینی ناخن سے داخل ہوئی اور آنکھوں تک پہنچی ۔ آدم علیہ السلام اپنے جسم کو دیکھ رہے تھے اور فرشتوں کی تسبیح سن رہے تھے۔پھرحضرت آدم علیہ السلام نے اوپر کی جانب دیکھا کہ عرش پر لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ لکھا ہو اہے اور اسم ِ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بھی لکھا ہوا پایا ۔جب روح حضرت آدم علیہ السلام کے دماغ تک پہنچی تو ان کو چھینک آئی ۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت آدم علیہ السلام تو الحمد للہ ! کہایہ وہ پہلا کلمہ تھا جوحضرت آدم علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوا ۔اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی فرمایا ’’رحمک اللہ‘‘ اے آدم میں نے تم کو رحمت کے لیے پیدا کیا ہے اور اپنی رحمت کو تمہارے اور تمہاری اولاد کے لیے پیدا کیا ہے۔جبکہ وہ بھی تمہاری طرح کہیں۔ اسی سبب سے چھینکنے والے کے لیے دعا کرنا سنت قرار پایا اور شیطان پر کوئی امر چھینکنے والے کے واسطے دعا کرنے سے زیادہ گراں نہیں۔پھر حضرت آدم علیہ السلام نے چاہا کہ کھڑے ہوجائیں لیکن نہ ہوسکے ۔اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا خُلِقَ الاِْنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ یعنی انسان جلدی کرنے والا پیدا کیا گیا ہے۔(سورہ انبیاء ۳۷)۔

نورِ محمدی ﷺ سے تمام انبیاء علیھم السلام کے نور کی تخلیق

نورِ محمدی ﷺ سے تمام انبیاء علیھم السلام کے نور کی تخلیق

احادیث مبارکہ میں مروی ہے کہ جب نور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو پید افرمایا گیا اورآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے تمام انبیائے کرام علیھم السلام کے انوار نکالے گئے تو اللہ تعالیٰ نے نور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے ارشاد فرمایا کہ ان انوار کی جانب نظر فرمائیے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر نظر فرمائی تو ان تمام کے انوار پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نور غالب آگیا اورتمام انبیاء علیہ السلام عرض کرنے لگے کہ اے ہمارے رب ! یہ کس کا نور ہے جس کے آگے ہمارے انوار ماند پڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نور محمد مصطفی (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ) کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں سے فرمایا میرے اس حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر تم سب کو ایمان لانا ہو گا۔

انبیاء علیہم السلام سے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کا عہد و پیماں

وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ(۸۱)

ترجمہ: اوریاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے لیا انبیاء سے پختہ عہدکہ قسم ہے تمہیں اس کی جو میں دوں تم کو کتاب اور حکمت سے پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول جو تصدیق کرنے والاہوان (کتابوں ) کی جو تمہارے پاس ہیں تو تم ضرور ایمان لانا اس پر اور ضرور ضرور مدد کرنا اس کی ۔(اس کے بعد) فرمایا کیا تم نے اقرار کر لیا اور اٹھا لیا اس پر تم نے میرا بھاری ذمہ ۔؟سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا (اللہ نے) فرمایا تو گواہ رہنا اور میں (بھی) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔(پارہ ۳ سور ہ آل عمران آیت ۸۱)

رسول اکرم ﷺ امام الانبیاء

اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نبی الانبیاء ہیں اس کی حقیقت آخرت میں ظاہر کی جائے گی جس وقت کہ تمام انبیاء علیھم السلام آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اسی طرح شب معراج ظاہر ہوا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے تمام نبیوں کی امامت فرمائی اور اگر زمین میں حضرت آدم ، نوح ، ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ علیھم السلام کو اپنی زندگی میں آپ سے شرف ملاقات کا اتفاق ہوتا تو ان سب پر اور ان کی امتوں پر واجب ہوتا کہ وہ آپ پر ایما ن لائیں اور آپ کی نصرت واعانت فرمائیں۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد لیا تھا۔جب اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا فرمایا تو اسے حکم فرمایا کہ ساقِ عرش ،ابواب جنت ،اس کے پتوں ، اس کے قبوں اور اس کے محلوں پر لکھ ’’لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘۔

ایک روایت میں ہے کہ  ’’لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ خاتمُ الاَنبِیَاءِ‘‘۔ اس کے بعد حکم ہوا کہ قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے سب لکھ ۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ’’جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا ھُوَ کَائِنُٗ‘‘ جو کچھ ہونے والا تھا سب کچھ لکھ کر قلم خشک ہوگیا۔

حضرت آدم علیہ السلام کی کنیت

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ان کی کنیت ابو محمد رکھی ۔منقول ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام سے خاص قسم کی لغزش واقع ہوئی تو انہوں نے مناجات کی ’’اے رب باواسطہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)میری اس لغزش کو معاف فرمادے‘‘۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’تم نے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)کو کہاں سے جانا ؟‘‘ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا ’’اسی زمانہ میں جب کہ تو نے مجھے ارشاد فرمایا تھا ۔اس وقت میری نظر عر ش اور ابواب جنت پر پڑی تو میں نے لکھا ہوا دیکھا ’’لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘ میں نے جان لیا کہ ضرور تیرے نزدیک ساری مخلوق سے بر گزیدہ ہستی یہی ذاتِ کریم ہوگی ۔جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملا کر لکھا ہے‘‘۔اس پر ندا فرمائی گئی کہ ’’یہ نبی آخرالزماں ہیں جو تمہاری ذریت یعنی اولاد سے ہیں۔ ان کا اسمِ گرامی آسمان میں احمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) اور زمین میں محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔اگر یہ نہ ہوتے تو میں آسمانوں اور زمین کو نہ پیدا کرتا ۔اے آدم میں نے تمہیں انہی کے طفیل پیدا فرمایا ہے‘‘۔

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت میں حضرت سیلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے بارگاہ ِ رسالت میں آکرعرض کیاکہ ’’اے محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپ کا رب فرماتا ہے کہ اگر میں نے ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا ہے تو تمہیں حبیب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)بنایا ہے۔اور میں نے اپنے نزدیک تم (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)سے زیادہ برگزیدہ کسی مخلوق کو پیدا نہیں کیا اور میں نے دنیا و جہان کو اسی لیے پیدا فرمایا ہے کہ وہ جان لیں کہ میرے نزدیک تمہاری کتنی قدرو منزلت اور مرتبت ہے۔ اگر تم(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) نہ ہوتے تو دنیا کو پیدا نہ کرتا‘‘۔

نورِ محمدی ﷺ حضرت آدم کی پیشانی میں

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نورِ محمدی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو پیشانی ِآدم علیہ السلام میں رکھا ۔ایک روایت ہے کہ ان کی پشت میں رکھا جو ان کی پیشانی سے چمکتا تھا پھر تمام اعضاء میں سرایت کر گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس نورکی برکت سے آدم علیہ السلام کو تمام مخلوقات کے اسماء کا علم عطا کیا اور فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم فرمایا۔

اس میں دو قول ہیں ۔ ایک جماعت کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے کہ : اِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ (اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا۔پارہ۱ سورہ البقرہ آیت ۳۰ ) ملائکہ سے مراد ،ابلیس اور اس کے ساتھ فرشتوں کا وہ لشکر ہے جو زمین میں تھے ،وہی سجدہ کرنے کے لیے مامور ہوتے تھے۔علماء کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین اور ملائکہ و جنات کو پیدا فرمایا تو فرشتوں کو آسمان میں رکھا اورجنات کو زمین میں ٹھہرایا اس کے بعد کچھ عرصہ تک جنات زمین میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے۔بعد ازاں انہوں نے ظلم و بغاوت کی بنیاد ڈالی تو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے ایک لشکر کو ان کی ہلاکت کے لیے زمین پر بھیجا ۔انکویا تو آنکھوں سے پوشیدہ ہونے کی بنا پر جِن کہا جانے لگا کہ وہ فرشتے اجنہ پر خازن و نگہبان مقرر کیے تھے۔علماء کی یہ جماعت ، ابلیس کو از قسم ملائکہ خیال کرتی ہے۔یہ جو قرآن میں وَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ ( جو جنات میں سے تھا) آیا ہے اس کے یہی معنیٰ مراد لیتے ہیں اور اس گروہ ملائکہ میں ابلیس پیشوا و مرشد اور زیادہ عالم تھا ۔پھر وہ جنات کے تصرف میں زمین تھی وہاں سے نکال کر پہاڑوں ،جزیروں اور دریاؤں میں ڈال دئیے گئے اور فرشتوں کی اس قسم کو جن کا نام  ’’جِن‘‘ تھا زمین میں ٹھہرایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے تمام روئے زمین ،آسمانِ دنیا اور جنت کی نگہبانی ابلیس کو دے دی۔ ابلیس کبھی زمین پر عبادت کرتا ،کبھی آسمان پر اور کبھی جنت میں۔لہذا اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے ملائکہ کو جن کا سردار ابلیس تھا حکم فرمایا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔

حکم سجدہ کے بارے میں صحیح قول

جیسا کہ کتبِ تفاسیر و تواریخ میں ذکر کیا گیا ہے لیکن صحیح قول یہ ہے کہ حکم سجدہ میں آسمان و زمین کے تمام فرشتے مامور و مخاطب تھے۔یہ قول نظمِ قرآن کے زیادہ موافق ہے۔ صاحبِ مواحب لدنیہ،حضرت امام جعفر صادق سَلَامَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلیٰ اٰبَائِہِ الْکِرَامِ وَ اَوْلَادِہِ الْعِظَامِ سے نقل کرتے ہیں کہ امام صاحب نے فرمایا کہ سب سے پہلے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا ،ان کے بعد میکائیل نے ، ان کے بعد اسرافیل نے ، ان کے بعد عزرائیل نے اور ان کے بعد ملائکہ مقربین نے سجدے کیے اور فرمایا فَسَجَدَ الْمَلٰئِکَۃِ کُلُّھُمْ اَجْمَعُوْنَ سب سے آخر میں تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔

حضرت حوا علیھا السلام کا مہر درود پاک مقرر ہوا

جب حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں داخل فرمایا گیا تو انہوں نے ا پنے جنسی رفیق کی خواہش ظاہرکی جس سے محبت کریں اور ذکر حق میں باطنی سکون و قرار حاصل کریں۔اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو نیند میں مبتلا کر دیا اور اس حالت ِخوابیدگی میں ان کی بائیں پسلی نکال کر اس سے سیدہ حوا کو پیدا فرما دیا، ان کا نام’’حواء‘‘ اسی بنا پر رکھا گیا کہ وہ ’’حی‘‘ یعنی زندہ سے پیدا کی گئی ہے۔جب حضرت آدم علیہ السلام نے حواء کو دیکھاتو اپنے دونوں ہاتھ ان کی طرف بڑھائے اس پر فرشتوں نے کہا ٹھہرئیے تا کہ نکاح ہوجائے اور آپ ان کا مہر ادا کریں۔حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا ’’مہر کیا ہے‘‘ ؟ فرشتوں نے کہا ’’تین مرتبہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج دو مہر ادا ہوجائے گا‘‘۔ایک روایت میں بیس مرتبہ آیا ہے۔

       چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کا نکاح حضرت حواء سے فرمایا اور اپنے کلام اقدس سے خطبہ پڑھا ۔اس خدائی اعزاز پر ابلیس، آدم علیہ السلام سے حسد کرنے لگا ۔مختصراً یہ کہ ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کو وسوسہ میں مبتلا کر کے جنت سے نکلوادیا ۔جب آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے تو اپنے کیے پر بہت پشیمان ہوئے اور طرح طرح کی دنیاوی مشقتیں جھیلیں ۔چنانچہ مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جب زمین پر تشریف لائے تو تین سو سال تک سر جھکائے اشکِ ندامت بہاتے رہے اور آسمان کی جانب سر نہ اٹھایا ۔ مسعودی فرماتے کہ اگرتمام روئے زمین کے رہنے والوں کے آنسوجمع کیے جائیں تو وہ حضرت آدم علیہ السلام کے آنسوؤں کے مقابلہ میں کم ہی نکلیں گے۔

حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کی قبولیت

کچھ روایتوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے آنسو سے عود، رطب، زنجبیل،صندل اور طرح طرح کی خوشبوئیں پیدا فرمائیں اور حضرت حواء کے آنسوؤں سے لونگ و جائفل وغیرہ پیدا فرمائی ۔بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ کلمات الہام فرمائے جن کے سبب انکی توبہ قبول ہوئی ۔ اکثر مفسرین کے قول کے مطابق وہ کلمات یہ ہیں۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ من الخٰسِرِین ’’اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اب اگر تو نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو یقینا ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے‘‘۔ واضح رہنا چاہیے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ، ان کا جنت میں داخل ہونا ،ابلیس کا وسوسہ ڈالنا اور ان کا جنت سے باہرآنا یہ طول و طویل واقعات ہیں۔ چونکہ فقیر کا مقصود نور مجسم سید البشر افضل الرسل صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل بیان کرنا ہے اس لیے ان میں سے جس قدر مفید طلب تھا لے لیا۔

       توبہ کی قبولیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان میں یہ دستور جاری فرمادیا کہ ہر حمل میں جڑواں بچے پیدا ہوتے ایک لڑکا اور ایک لڑکی ۔مگر حضرت شیث علیہ السلام جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجدہیں،تنہا پیداہوئے تا کہ نور مصطفوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں ان کے اور کسی دوسرے کے درمیان اشتراک نہ ہو ۔حضرت آدم علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے حضرت شیث علیہ السلام کو وصیت فرمائی کہ اس نور مبارک کو پاک بیبیوں میں منتقل کرنا ۔بعد میں حضر ت شیث علیہ السلام نے بھی اپنے فرزندہ جن کانام ’’انوش‘‘ تھا یہی وصیت فرمائی۔اسی طرح اس وصیت کا سلسلہ ایک قرن سے دوسرے قرن تک جاری رہا یہاں تک کہ یہ نور مبارک حضرت عبدالمطلب سے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک آیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے نسب شریف کو سفاح جاہلیت(یعنی وہ زنا جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا)سے پاک و صاف رکھا۔

رسول اکرم ﷺ کا نسب مبارک

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’میں نکاح سے پیدا ہوا ہوں، سفاح جاہلیت سے نہیں یہاں تک کہ آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک میرے ماں باپ کبھی جاہلیت کے زنا و سفاحت کے قریب تک نہیں گۓ‘‘۔ایک اور حدیث میں ہے کہ فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمیشہ اصلاب طیبہ سے ارحام طاہر ہ مصفاومہذبہ میں منتقل فرمایا‘‘۔ان میں جب بھی دو قبیلے بنتے تو مجھے ان میں بہترین قبیلے میں رکھا جاتا ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد باری تعالیٰ وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ نبی سے نبی کی طرف منتقل ہوتا رہا۔اور ہمیشہ نور مصطفوی اصلاب انبیاء علیہم السلام میں منتقل ہوتا رہا ۔یہاں تک کہ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے آپ کو جنم دیا۔

والد ِماجد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے حضور ﷺ کا نسب شریف

حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نسب شریف والد ِماجد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے اس طرح ہے۔

(۱) حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم (۲)بن عبداللہ (۳)بن عبدالمطلب (۴)بن ہاشم (۵) بن عبدمناف (۶) بن قصی    (۷) بن کلاب  (۸)بن مرہ  (۹) بن کعب  (۱۰) بن لؤی (۱۱)بن غالب (۱۲) بن فہر (۱۳)بن مالک (۱۴)بن نضر  (۱۵)بن کنانہ (۱۶)بن خزیمہ (۱۷)بن مدرکہ (۱۸)بن الیاس(۱۹)بن مضر (۲۰)بن نزار (۲۱)بن معد (۲۲)بن عدنان۔

والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نسب شریف

اور والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نسب شریف یہ ہے۔

 (۱) حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم (۲)بن آمنہ(۳) بنت وہب (۴)بن عبدمناف (۵)بن زہرہ (۶)بن کلاب (۷)بن مرہ۔

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کے نسب نامہ ’’کلاب بن مرہ‘‘ پر مل جاتا ہے اور آگے چل کر دونوں سلسلے ایک ہی ہو جاتے ہیں۔ ’’عدنان‘‘ تک آپ کا نسب نامہ صحیح سندوں کیساتھ باتفاق مورخین ثابت ہے۔اس کے بعد ناموں میں بہت اختلاف ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جب بھی اپنا نسب نامہ بیان فرماتے تو ’’عدنان‘‘  ہی تک ذکر فرماتے تھے۔(کرمانی بحوالہ حاشیہ بخاری جلد اول ص۵۴۳)

مگر اس پر تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ  ’’عدنان‘‘ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں اور اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند ہیں۔

حضرت سیدنا عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

کائنا ت کا کوئی بھی والد مرتبے میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑھ نہیں سکتا کیونکہ آپ اس عظیم ہستی کے والد ماجد ہیں جو اللہ رب العالمین کے محبوب اور سردار الانبیاء ہیں ۔اور اس عظیم ہستی کے والد ہیں جن کے ظاہرہوتے ہی ہدایت کی روشنی اتنی پھیل گئی کہ اس کے بعد کسی دوسرے نور ہدایت کی ضرورت ہی نہ رہی ۔جس نے اپنی شبانہ روز محنت سے انسان کا ٹوٹا ہوا رشتہ اس کے رب سے جوڑ دیا ۔حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سب سے چھوٹے اور سب سے لاڈلے بیٹے تھے۔

آپ کے والد نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس بیٹے عطا کیے اور و ہ سب جواں اور صحت مند ہو کر ان کی تقویت کا باعث بنے تو وہ ان میں سے ایک بیٹا اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کریں گے ۔جب حضرت عبدا للہ کی عمر اٹھار ہ یا بیس سال ہو گئی تو انہیں اپنی نذر پوری کرنے کا خیال آیا۔ آپ نے اپنے بیٹوں کو طلب کیا اور انہیں اپنی نذر کے بارے میں بتایا تو سب بیٹوں نے بڑی سعادت مندی کا اظہارکیا اور سر جھکا دئیے اور ادب کے ساتھ عرض کیا کہ ہمارے والد محترم ! آپ اپنی نذر پوری کیجئے اور ہم میں سے جس کا نام آئے گا وہ فخر کے ساتھ اپنے سر کا نذرانہ پیش کر دے گا۔سب نے فیصلہ کیا کہ بیت اللہ شریف کے فال نکالنے والے کے پاس جاتے ہیں اور جس کے نام کا قرعہ نکلے گا اسے اللہ کی راہ میں قربان کیا جائے گا ۔سب مل کر بیت اللہ شریف میں فال نکالنے والے کے پاس گئے اور اسے صورتحال سے آگاہ کیا جب فال نکلا تو اس میں حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نام تھا ۔ آپ سب بیٹوں سے زیادہ خوبصورت اور سیرت وکردار میں افضل تھے ۔حضرت عبدالمطلب نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے چھری منگوائی اور آستینیں چڑھانے لگے ۔اس بات کی خبربجلی کی طرح مکہ کے ہر گھر میں پھیل گئی ۔قریش کے بڑے بڑے رئیس اپنی مجلسوں سے دوڑتے ہوئے پہنچ گئے اور مکہ کے سردار کہنے لگے کہ ’’اے عبدالمطلب! ہماری آنکھوں کے سامنے چاند سے زیادہ خوبصورت اور پھول سے زیادہ نازک بدن والا عبدا للہ قربان ہو جائے۔ہم ہر گز ایسا نہیں ہونے دیں گے‘‘ تو حضرت عبدالمطلب نے فرمایا کہ ’’یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے تم اس میں دخل اندازی مت کرو ۔میں نے اپنے رب سے جو وعدہ کیا تھا اس کو ہر قیمت پر پورا کروں گا‘‘۔آپ نے اپنے پختہ عزم کا اظہار ان الفاظ سے کیا:

ترجمہ: ’’ میں نے اپنے رب سے عہد کیا ہے اور میں اپنے اس عہد کو پورا کروں گا بخدا کسی چیز کی ایسی حمد نہیں کی جاتی جس طرح اللہ تعالیٰ کی حمد کی جاتی ہے ۔جب وہ میرا مولا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں اور اس کے لیے میں نے نذرمانی ہے تو میں اس بات کو پسندنہیں کرتا کہ میں اس نذر کو مسترد کر دوں پھر مجھے زندہ رہنے کی کوئی خواہش نہیں۔‘‘

مکہ کے سرداروں کی حضرت عبد المطلب سے درخواست

مکہ کے سرداروں نے کہا کہ ’’اے عبدالمطلب ! اگر بیٹوں کو ذبح کرنی کی رسم کا آغاز تم جیسی عظیم ہستی نے کر دیا تو پھر اس رسم کو بند کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔اپنے بچوں پر رحم کرو‘‘۔طویل کشمکش کے بعد یہ طے پایا کہ حجاز کی عرافہ کے پاس جاتے ہیں وہ جو فیصلہ کرے گی اس کو سب تسلیم کریں گے۔ چنانچہ سب مل کر اس عرافہ کے پاس گئے اور اسے اپنے مقصد سے آگاہ کیا تو اس نے پوچھا کہ تمہارے ہاں مقتول کی دیت کیا ہے ۔انہوں نے بتایا دس اونٹ ۔جس پر اس عرافہ نے کہا کہ تم اپنے وطن واپس چلے جاؤ اور ایک طرف دس اونٹ کھڑے کرنا اور دوسری طرف عبداللہ کو پھر فال نکالنا ۔ اگر قرعہ اونٹوں کے نام نکلاتو ان کو ذبح کر دینا تمہاری نذر پوری ہوجائے گی اور اگر عبد اللہ کے نام نکلا تو پھر دس اونٹ بڑھاتے چلے جانا یہاں تک کے قرعہ عبدا للہ کے بجائے اونٹو ں کے نام نکلے ۔جتنے اونٹوں پر قرعہ نکلے ان کو ذبح کر دیناتمہاری نذر پوری ہو جائے گی۔چنانچہ اسی طرح قرعہ نکالا گیا یہاں تک کہ اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئی ۔اس وقت قرعہ اونٹوں کے نام نکلا تو حضرت عبد المطلب نے فرمایا کہ تین بار قرعہ اندازی کرو اگر تینوں بار اونٹوں کے نام قرعہ نکلا تو میں تسلیم کروں گا ورنہ نہیں ۔ عالم انسانیت کی خوش قسمتی اوراللہ تعالیٰ کا فضل کہ تینوں بار قرعہ اونٹوں کے نام نکلا ۔چنانچہ وہ اونٹ ذبح کر دئیے گئے اور آپ نے اذن عام دے دیا کہ چرند ،پرند، درندے اورانسان جوکوئی بھی جتنا بھی گوشت لے کر جانا چاہے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔چنانچہ نذر پوری ہوگئی۔

حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شادی مبارک

اب جناب عبدالمطلب کو یہ فکرہوئی کہ وہ اپنے جواں بخت اور جواں سال بچے کی شادی کی خوشی منائیں اور ایسی دلہن بیاہ کر لائیں جو اپنے دولہا  کی طرح خصائل وشمائل میں اپنی مثال آپ ہو ۔ اسکے لیے حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتخاب کیا ۔ جو کہ قریش کے بنو زہرہ خاندا ن کے سردار وہب بن عبد مناف بن زہرہ کی نور نظر تھیں۔ حضرت عبدالمطلب وہب کے گھر تشریف لے گئے اور ان سے حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رشتہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کرنے کی درخواست کی ۔ وہب نے جب دیکھا کہ بنو ہاشم کے سردار عبدالمطلب نے اپنے نور نظر کے لیے حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کارشتہ طلب کیا تو وہب کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور انہوں نے اس خواہش کو بسرو چشم قبول کیا ۔ جلد ہی تقریب نکاح انجام پذیر ہوئی اور حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر نامدار کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کرنے لگیں۔

حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد عبدالمطلب کی طرح تجارت کا پیشہ اختیارکیا ۔ اور تجارتی مال لے کر ملک شام کی طرف سفر کیا ۔ تجارتی مصروفیات سے فراغت پانے کے بعد جب آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ  واپس آنے کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں بیمار ہوگئے ۔ قافلہ جب مدینے پہنچا تو آپ کی طبیعت مزید خراب ہوگئی اور آپ اپنے ننہال میں رک گئے کہ طبیعت ٹھیک ہو تو سفر شروع کریں ۔ دوسرے ساتھی واپس لوٹ آئے ۔ آپ ایک ماہ وہاں بیمار رہے اور اس کے بعد وفات پاگئے ۔ انکی اچانک وفات سے سب کو بہت صدمہ ہوا لیکن حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دل پر جو قیامت ٹوٹی ہو گی اس کا بس وہی اندازہ لگا سکتیں ہیں ۔

حضرت عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

:حضرت عبدالمطلب مدینہ منورہ  میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد محترم کا نام ہاشم اور والدہ محترمہ کا نام سلمیٰ تھا ۔ جو کہ عمر و بن لبید خانو ادہ بنی نجار کے سردار تھے ان کی بیٹی تھیں۔ ہاشم تجارت کے سلسلے میں ملک شام گئے اور وہیں پر وفات پا گئے۔

جب عبدالمطلب سن ِرشدکو پہنچے اور اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوئے تو آپ کے چچا مطلب نے آپ کے باپ کی جائیداد آپ کے حوالے کر دی نیز رفادہ سقایہ وغیرہ مناصب جو ہاشم کے سپرد تھے وہ بھی ان کے حوالے کر دئیے ۔ عبدالمطب کے چچا نوفل نے ان سے سقایہ کا منصب  چھیننے کی کوشش کی اور ان کے مکانات اور سازو سامان پر قبضہ کر لیا۔ جوسقایہ کا فریضہ ادا کرنے کے لیے ہاشم کے پاس تھے۔ مگر عبدالمطلب نے اپنے ماموں ابو سعد کے تعاون سے اپنا حق واپس لے لیا۔ 

حضرت عبد المطلب اور آبِ زمزم کا واقعہ

بنوجرہم کو جب بنو خزاعہ نے مکہ سے جلا وطن کیا تو انہوں نے بیت اللہ شریف کے اندر جو سونے کے دو ہرن آویزاں تھے اور تلواریں ، زرہیں   قیمتی سامان وہ سب زم زم کے کنوئیں میں پھینک دیا اور اس کو مٹی سے بھر دیا تا کہ بنو خزاعہ وغیرہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکیں ۔ چنانچہ سینکڑوں سال زمزم بندپڑا حتیٰ کہ لوگ اس کو بھول گئے اور دوسرے کنوؤں سے اپنی ضرورت پوری کرنے لگے۔

امام ابو القاسم السہیلی اپنی کتاب الروض الانف میں لکھتے ہیں کہ بنوجرہم کی بدکاریوں کے نتیجہ میں زمزم کا پانی خشک ہوگیا تھا اور اس نعمت سے اللہ تعالیٰ نے  انہیں محروم کر دیا تھا ۔

ایک روز عبدا لمطلب حطیم میں سور ہے تھے کسی نے خواب میں آکر کہا احفر طیبہ( طیبہ کو کھودو) ۔انہوں نے پوچھا ۔طیبہ کیا ہے تو کہنے والا غائب ہو گیا۔ دوسری رات پھر جب وہ اپنے بستر پر آکر لیٹے آنکھ لگی تو اس شخص نے پھر کہا احفر برہ (برہ کو کھودو) آپ نے پوچھابرہ کیا ہے تو پھر وہ غائب ہو گیا ۔ تیسری رات پھر خواب میں آواز آئی احفر مضنونہ( مضنونہ کو کھودو)۔ آپ نے پوچھا مضنونہ کیا ہے وہ پھر غائب ہوگیا ۔جب چوتھی رات آئی اور وہ اپنی خواب گاہ میں آرام کرنے کے لیے لیٹے تو آنکھ لگتے ہی آواز آئی احفر زمزم (زمزم کو کھودو )۔ آپ نے پوچھا زمزم کیا ہے؟ آج اس شخص نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ۔

زمزم تیرے پدر نامور کی میراث ہے ۔ یہ چشمہ نہ اس کا پانی ختم ہوتا ہے نہ اس کی مرمت کی جاتی ہے۔اس سے حجاج کرام کو سیراب کیا جاتا ہے ’’یہ گوبر اور خون کے درمیان میں ہے جہاں کالا کوا چونچیں مار رہا ہے۔چیونٹیوں کی بستی کے بالکل قریب ہے‘‘۔

آبِ زمزم کے لیے حضرت عبد المطلب کی کھدائی

جب تفصیلات کا علم ہوگیا تو دوسرے روز اپنے بیٹے حارث کے ہمراہ کدال لے کر (اس وقت ان کا یہی بیٹا تھا) آگئے ۔اساف اور نائلہ کے درمیان جہاں مشرکین بتوں کے لیے قربانی کے جانور ذبح کیا کر تے تھےوہاں پہنچے اور دیکھا ایک سیاہ رنگ کا کوا وہاں چونچیں مار رہا ہے کھدائی شرو ع کر دی یہاں کہ وہ ایک   ایسی تہہ تک پہنچ گئے جس سے کامیابی کے امکانات روشن ہو گئے آپ نے فرط ِ مسرت سے اللہ اکبر کا نعر ہ لگایا۔

قریش نے ابتدا میں تو اس کوشش کو سعی لاحاصل سمجھتے ہوئے کوئی پرواہ نہ کی لیکن جب کامیابی کے آثار نمایاں ہونے لگے تو وہ کہنے لگے کہ چاہِ زمزم ہم سب کے باپ کا کنواں ہے۔ہمیں بھی اس کی کھدائی میں شریک کیا جائے ۔ آپ نے انکار کر دیا ۔فرمایا یہ انعام اللہ تعالیٰ نے صرف مجھ پر کیاہے اس میں کسی کی شرکت میں منظور نہیں کروں گا۔جب جھگڑا زیادہ بڑھا تو فیصلے کے بنی سعد بن ھزیم کی کاہنہ کوحاکم مقررکیاگیا ۔فریقین اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستہ میں عبدالمطلب کے پانی کا ذخیرہ ختم ہوگیا آپ نے دوسرے فریق سے پانی طلب کیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا اور یہ لوگ پیاس کی شدت سے کمزورہوتے جارہے تھے ۔موت سامنے نظر آرہی تھی ۔حضرت عبدالمطلب نے ساتھیوں سے مشورہ کر کے یہ طے پایاکہ سب لوگ اپنی اپنی قبر کا گڑھا کھودیں جب کوئی دم توڑ دے تواسے اس کے گڑھے میں دفن کر دیا جائے ۔آخر میں جو آدمی رہ جائے گا اگر اس کو کسی نے دفن نہ کیا تو کوئی حرج نہیں۔بجائے اس کے کہ سب کی لاشیں بے گور و کفن پڑیں رہیں۔اس سے یہ بہترہے کہ آخری آدمی تجہیز و تکفین سے محروم رہ جائے ۔چنانچہ ہرایک نے اپنی اپنی قبر کا گڑھا تیار کرلیا اور موت کاانتظارکرنے لگے ۔پھر حضرت عبدالمطلب نے کہا جب تک جسم میں جان ہے آگے بڑھتے ہیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہمارے بچنے کا کوئی سامان مہیا کردے چنانچہ سب نے اپنے اونٹوں کے کجاوے کسے اور ان پر سوار ہوگئے۔جب حضرت عبدالمطلب نے اپنا اونٹ اٹھایا تو اس کے پاؤں کے نیچے چشمہ ابل پڑا ،پانی ٹھنڈا بھی تھااور میٹھابھی۔سب نے خوب سیرہو کر پیاس بجھائی اور اپنے مشکیزے بھی بھرلیے۔آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دوسرے فریق سے بھی کہو کہ وہ بھی اس چشمہ سے جی بھرکرپانی پی لیں اور اپنے برتین بھرلیں۔جب دوسرے فریق نے آپ کی یہ کرامت دیکھی تو کہا عبدالمطلب اب آگے جانے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا ہے ۔جب اس نے اس لق و دق صحرامیں تمہارے اونٹ کے پاؤں کی ٹھوکرسے چشمہ جاری کر دیا ہے تو زمزم بھی صرف تمہاراہے۔ہم اس میں حصہ داری کا دعویٰ واپس لیتے ہیں۔چنانچہ دونوں گروہ واپس آگئے۔حضرت عبدالمطلب نے کھدائی مکمل کی۔

آپ بڑے ہی نیک نفس او ر عابد و زاہد تھے ’’غار حرا‘‘ میں کھانا پانی ساتھ لے کرجاتے اورکئی کئی دنوں تک مسلسل عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ آپ اپنے دستر خوان سے پرندوں کو بھی کھلایا کرتے تھے اس لیے انکا لقب  ’’مطعم الطیر‘‘ (پرندوں کو کھلانے والا) ہے ۔شراب اور زنا کو حرام جانتے تھے آپ کعبہ معظمہ کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے ایک سو بیس برس کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔

DreamShaper_v7_Abeezamzam_water_well_dig_1-e1706052212415

واقعہ فیل

DreamShaper_v7_elephants_3-e1706052174344

جب ابرہہ حاکم یمن نے اصحمہ نجاشی کی جانب سے مکہ مکر مہ پر چڑھائی کی اور وہ بیت اللہ کو گرانے کے لیے بہت بڑا سفید ہاتھی لایاتو لوگوں نے حضرت عبدالمطلب کو اس کی خبر دی انہوں نے فرمایا کہ اے قریش مت ڈرو۔ اس گھر کی حفاظت کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔

اس کے بعد ابرہہ ،قریش کی بکریاں اور اونٹ ہنکا کر لے گیا ان میں حضرت عبدالمطلب کے بھی چار سو اونٹ تھے۔حضرت عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریش کے ساتھ اونٹ پر سوارہو کرایک پہاڑ پر چڑھے اور دعا مانگی۔ اس وقت حضرت عبدالمطلب کی پیشانی پر نور ِ محمدی ہلا ل کی طرح چمکنے لگا  اور اس نورِ مبارک کی تیز شعاعیں خانہ کعبہ پر پڑنے لگیں جس سے وہ خوب روشن ہو گیا ۔جب حضرت عبدالمطلب نے اس نور مبارک کو دیکھا تو فرمانے لگے اے گروہ قریش! اس معاملے میں تمہیں بلا شبہ کامیابی ہوگی ۔ خدا کی قسم یہ نور مبارک اسی وقت چمکتا ہے جب ہمیں کامیابی حاصل ہونے کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد قریش لوٹ گئے ۔

ابابیلوں کی سنگ باری

ابرہہ صبح کو لشکر جرار اور ہاتھیوں کی قطار کے ساتھ خانہ کعبہ کو گرانے کے لیے آگے بڑھا۔اور مقام ’’مغمس‘‘ میں پہنچا تو خود اس کا ہاتھی جس کا نام ’’محمود‘‘ تھا ایک دم بیٹھ گیا۔ ہر چند اس کو بہت مارا گیا مگر وہ نہ اٹھا ۔اسی حال میں قہر الہی ابابیلوں کی شکل میں ان پر نازل ہوا۔ ننھے ننھے پرندے جھنڈ کے جھنڈ جن کی چونچ اور پنجوں میں تین تین کنکریاں تھیں سمندر کی جانب سے کعبہ کی طرف آنے لگے اور ابرہہ کے لشکر پر اس زور سے سنگ باری شروع کر دی کہ آن کی آن میں ابرہہ کے لشکر اور اس کے ساتھیوں کے پرخچے اڑگئے۔      

ابابیلوں کی سنگ باری اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کی ایسی مار تھی کہ جب کوئی کنکری کسی ہاتھی سوار پر پڑتی تھی تو وہ اس آدمی کے بدن کو چیرتی ہوئی ہاتھی کے بدن سے پار ہو جاتی ۔ابرہہ اور اس کی فوج کا کوئی آدمی بھی زندہ نہ بچا اور وہ سب کے سب اس طرح ہلاک ہوگئے کہ ان کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔جب ابرہہ اور اس کے لشکر کا یہ انجام ہوا تو حضرت عبدالمطلب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔ ان کی اس کرامت کا دور دور تک چرچا ہوگیا اور تمام اہل عرب ان کو ایک خدا رسیدہ بزرگ کی حیثیت سے قابل احترام سمجھنے لگے۔

حضور ﷺ کے پردادا حضرت ہاشم

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پر دادا ’’ہاشم‘‘ بڑی شان و شوکت کے مالک تھے ۔ان کا اصلی نام ’’عمرو‘‘ تھا۔بے حد سخی اور اعلیٰ درجے کے مہمان نواز تھے ۔ایک سال عرب میں بہت سخت قحط پڑ گیا اور لوگ دانے دانے کو محتاج ہوگئے تو یہ ملک شام سے خشک روٹیاں خرید کر حج کے دنوں میں مکہ پہنچے اور روٹیوں کاچورا کر کے اونٹ کے گوشت کے شوربے میں ثرید بنا کر تمام حاجیوں کو خوب پیٹ بھر کر کھلایا اس دن سے لوگ ان کو ہاشم (روٹیوں کا چورا کرنے والا) کہنے لگے ۔چونکہ یہ عبدمناف کے سب سے بڑے بیٹے تھے ۔ اس لیے عبدمناف کے بعد کعبہ مظمہ کے متولی اورسجادہ نشین ہوئے بہت حسین وجمیل تھے ۔جب سنِ شعورکو پہنچے تو ان کی شادی قبیلہ خزرج کے ایک سردار عمرو کی بیٹی سلمیٰ سے ہوئی۔ہاشم 25سال کی عمر پا کر ملک شام کے راستہ میں بمقام  ’’غزہ‘‘ انتقال کر گئے۔

حضرت عبد مناف

عبدمناف کا نام مغیرہ اور کنیت’’ابو عبدالشمس‘‘ ہے ۔ان کے حسن و جمال کی وجہ سے انہیں قمر البطحاء (بطحا کا چاند)کہاجا تا تھا۔ آپ اپنے خصائل و مکارم کے باعث اپنے ہمعصرو ں سے اعلیٰ و ارفع تھے۔ اپنی سخاوت اور غیر معمولی فہم و فراست کی وجہ سے اپنے والد کے بعد یہی اپنی قوم کے سردار مقرر ہوئے۔

حضرت قصی

ان کا نام زید تھا۔ ۴۰۰ ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے ۔ان کا اصلی نام زید اور کنیت ابو مغیرہ تھی۔ یہ قبیلہ قریش کے عالم تھے اور ان کو راہ راست پر ثابت قدمی سے چلتے رہنے کی تاکید کرتے رہتے۔ یہ اپنی قوم کو جمعہ کے روز جمع کیا کرتے اس وقت اس دن کو یوم العروبہ کہا جاتاتھا ۔انہیں واعظ فرماتے اور بتاتے کہ عنقریب ہم میں ایک نبی تشریف لانے والے ہیں۔جب وہ تشریف لے آئیں تو ان کی دعوت کو قبول کرنے میں دیر نہ کرنافوراً ان پر ایمان لے آنا ۔اگرچہ عمرو کی بد بختی کے باعث بت پرستی کی بیماری اہل عرب اور اہل مکہ میں بھی عام ہوچکی تھی۔لیکن آپ اپنے خطبات اور واعظ میں اپنی قوم کو بت پرستی سے باز رہنے کی تلقین فرماتے۔

حضرت کلاب

ان کا نام زید تھا۔ ۴۰۰ ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ ان کا اصلی نام زید اور کنیت ابو مغیرہ تھی۔ یہ قبیلہ قریش کے عالم تھے اور ان کو راہ راست پر ثابت قدمی سے چلتے رہنے کی تاکید کرتے رہتے۔ یہ اپنی قوم کو جمعہ کے روز جمع کیا کرتے اس وقت اس دن کو یوم العروبہ کہا جاتاتھا ۔انہیں واعظ فرماتے اور بتاتے کہ عنقریب ہم میں ایک نبی تشریف لانے والے ہیں۔جب وہ تشریف لے آئیں تو ان کی دعوت کو قبول کرنے میں دیر نہ کرنافوراً ان پر ایمان لے آنا۔ اگرچہ عمرو کی بد بختی کے باعث بت پرستی کی بیماری اہل عرب اور اہل مکہ میں بھی عام ہوچکی تھی۔لیکن آپ اپنے خطبات اور واعظ میں اپنی قوم کو بت پرستی سے باز رہنے کی تلقین فرماتے۔

حضرت مرہ

ان کی کنیت ابو یقظہ تھی۔یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نسب میں چھٹے دادا ہیں ۔اسی طرح حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھی چھٹے دادا ہیں۔حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلہ نسب یہاں آکر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل جاتا ہے۔

حضرت کعب

DreamShaper_v7_waqaiefeil_in_islam_7-1

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے آباؤ اجداد میں آپ کی شخصیت بڑی ممتاز تھی۔وہ ہر جمعہ کو اپنے قبیلہ قریش کو جمع کرتے اور انہیں واعظ و نصیحت فرماتے۔ ان کے خطبات ان کے ایمان صادق کی تصدیق کرتے ہیں۔وہ لوگوں کو اللہ رب العالمین کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیتے۔ کعب کی اہل عرب کے نزدیک بڑی قدر و منزلت تھی۔اہل عرب نے اپنی تاریخ کا آغاز ان کے یوم وفات سے کیا۔عام الفیل تک یہی سن تاریخ استعمال کرتے رہے۔ کعب کی وفات اور رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے درمیان پانچ سو ساٹھ سال کا عرصہ ہے۔

آپ حج کے ایام میں بھی لوگوں کو خطبہ دیتے تھے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بارہ میں بھی لوگوں کو آگاہ کیا کرتے تھے۔

حضرت لؤی

ان کی والدہ کانام عاتکہ بنت یخلدبن نضربن کنانہ تھا۔قریش میں عاتکہ نام کی خواتین جن کا ذکر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نسب شریف میں آتا ہے۔ ان میں سے یہ پہلی عاتکہ ہیں۔لؤی کے دو سگے بھائی تھے ایک کا نام تیم تھا ۔دوسرے کانام قیس تھا ان کی کوئی اولاد باقی نہیں ۔ ان کے خاندان کے آخری فرد نے خالد بن عبداللہ القسری کے زمانہ میں وفات پائی۔ان کے گھرانے کا کوئی فرد زندہ نہ تھا جنہیں ان کی وراثت دی جاتی۔

حضرت غالب

ان کی کنیت ابو تیم تھی ۔ان کے دوبیٹے تھے ۔ایک کا نام لؤی اور دوسرے کا تیم تھا۔ غالب کے بیٹے تیم قبیلہ بنو تیم کے جد اعلیٰ تھے۔

حضرت فہر

ان کی والدہ کا نام جندلہ بنت عامر بن حارث بن مضاض الجر ہمی تھا۔ یہ جماع قریش کے لقب سے مشہور تھے اپنے زمانہ میں وہ اہل مکہ  اورارد گرد بسنے والے قبائل کے رئیس تھے۔ان کے بارے میں اہل سیر و تواریخ کی ایک جماعت کہتی ہے کہ قریش اس کا لقب ہے۔اور قریش کی   نسبت اسی جانب کرتے ہیں چنانچہ جو فہرکی اولادسے نہیں ہوتا اسے قریشی نہیں کنانی کہتے ہیں اور ان کی اولاد کو قرشی بھی کہتے ہیں۔

حضرت مالک

اس کی ماں عکرشہ بنت عدوان تھی۔اس کا اصل نام تو عاتکہ تھا البتہ عکر شہ لقب تھا۔قریش کو یہ نام قریش بن بدر بن یخلد بن الحارث بن نضر بن کنانہ کی وجہ سے ملا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ بنو النضر کے تجارتی قافلے جب آتے تو عرب والے کہتے کہ قریش کا قافلہ آگیا۔قریش بنو النضرکا سفر میں رہنما اور ان کے سامان ،خوردونوش کا منتظم ہوتا تھا۔

CAMEL2 (1)

حضرت نضر

ان کانام قیس تھا اور اپنے چہرے کی دمک اور حسن و جمال کی وجہ سے نضر کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام برہ بنت مُر بن ادبن تابخہ تھا۔

حضرت کنانہ

ان کی والدہ کا نام عوانہ بنت سعد بن قیس بن عیلان تھا اور بعض کے مطابق ان کی والدہ کا نام ہند بنت عمرو بن قیس تھا۔ان کی کنیت ابو نضر تھی۔ ان کے بارے میں آتا ہے کہ ایک روز یہ حطیم میں سو رہے تھے خواب میں دیکھا کہ انہیں کہا گیا ہے کہ گھوڑے ،اونٹ ،تعمیرات یا دائمی عزت ان چاروں میں سے ایک چیز چن لو۔ آپ نے عرض کی اے میرے رب مجھے ساری چیزیں عطا فرما ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرما لی اور آپ کے طفیل قریش کو ساری نعمتیں عطا فرمادیں۔

خزیمہ

ان کی والدہ کا نام سلمی بنت اسلم تھا ان کے سگے بھائی کا نام ہذیل تھا۔ماں کی طرف سے بھی ان کا ایک بھائی تھا ۔ جس کا نام تغلب بن حلوان تھا۔

مدرکہ

ان کا اصلی نام عمرو تھا۔ ان کی والدہ خندف تھیں ۔ اس کا اصل نام لیلیٰ بنت حلوان بن عمران بن الحاف بن قضاعہ ہے۔مدرکہ کے دوسرے حقیقی بھائی عامر اور عمیر تھے ۔عامر طابخہ اور عمیر قمعہ ہے کہا جاتا ہے کہ یہ ہی ابوخزاعہ ہے۔آپ کی والدہ خندف یمن کی رہنے والی تھیں ۔اس کے بیٹے بجائے باپ کے اسی کانام سے منسوب ہوئے اور بنو خندف کہلائے۔

الیاس

23

یہ قبائل عرب کے سربراہ اور سردار تھے ۔ اہل عرب انہیں ’’سید العشیرہ‘‘ کے نام سے بلاتے تھے۔ الیاس پہلے شخص ہیں جنہوں نے بیت الحرام کی طرف اونٹوں کی ہدی بھیجی۔قاموس میں کہا گیا ہے کہ یہ پہلے شخص ہیں جنہیں یاس محرکہ یعنی سیل پہنچی ہے۔منقول ہے کہ وہ حج کے موقع پر اپنی پشت میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تلبیہ کی آواز سنا کرتے تھے۔

مضر

مضر وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے اہل و عیال کے لیے ھدی کو مقرر کیایہ اپنے زمانے میں تمام لوگوں سے بہتر خوش آواز تھے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مضر کو برا بھلا مت کہو کیونکہ وہ مومن تھے اور یہ دین اسلام اورملت ابراہیم پر قائم تھے۔

نزار

یہ معد کے بیٹے تھے۔جب یہ پیدا ہوئے تو ان کی آنکھوں کے درمیان نور محمدی چمک رہا تھا جسے دیکھ کر ان کے والد بہت خوش ہوئے اور اس نعمت کا شکر بجا لاتے ہوئے انہوں نے بہت سے اونٹ ذبح کیے اور بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا۔اور اس دعوت میں بہت روپیہ خرچ کیا۔دعوت کے بعد کہا کہ میں نے جتنا کثیر صدقہ کیا ہے یہ اس نو نہال کی برکت کے مقابلہ میں بہت قلیل ہے۔ نزار بہت بلند اقبال تھے جس شاہی دربار میں تشریف لے جاتے بادشاہ خود ان کا استقبال کرتے اوربڑی محبت سے پیش آتے تھے۔

معد

یہ عدنان کے صاحبزاد ے تھے۔آپ جس جنگ میں بھی جاتے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نور کی وجہ سے جو آپ کی پیشانی میں تھا ہمیشہ کامیاب وکامرا ن لوٹتے اور ہمیشہ جنگ کے لیے تیار رہتے۔

عدنان

ان کے والدکا نام ’’اُدد‘‘ یا  ’’اُد‘‘ تھا۔عدنان پہلے شخص ہیں جنہوں نے بیت اللہ شریف کو غلاف پہنایا۔ آپ کا نام عدنان اس لیے مشہور ہوا کہ یہ عدل سے نکلاہے جس کے معنی قائم اور باقی رہناہے کیونکہ جن و انس اور شیطان کے شرکے ان کومحفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے تھے اس لیے یہ عدنان کے نام سے موسوم ہوئے اور ان سے اوپر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نسب شریف نہیں جاتا۔

بقلم فقیر غلام حسنین قادری المعروف سائیں سرکار

سائیں سرکار سے رابطہ کریں

آپ سائیں سرکار سے براہ راست بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔ رابطہ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کریں۔

WhatsApp نمبر

رابطہ فارم